کالمز
امریکی پابندیوں کا ردّ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بے حد ذہین ،زیرک اور دور اندیش سیا ستدان ہیں انہوں نے اپنے سارے پتے سوچ سمجھ کر کھیلے سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر امریکہ کے دروازے بند کرنے اور تین مزید اسلامی ممالک کو عنقریب ان پابندیوں میں شامل کرنے کا حکم بھی اُن کی ذہانت اور دور اندیشی کی نشانی ہے امریکہ سے زیادہ مسلم ممالک کے حق میں ان پابندیوں کے دورر س نتائج سامنے آئینگے فوری طور پر ان پابندیوں کا ملا جلا ردّعمل سامنے آیا ہے امریکہ اور یورپ میں ان پابندیوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج ہو رہا ہے عدالتوں میں مقدمے لائے جا رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی امریکی کانگریس میں اس قانون کو روکنا چاہیتی ہے کیونکہ 3 مہینوں کے اندر صدر کے حکمنامے کو قانون کا درجہ نہ ملا تو یہ حکمنامہ خود بخود ختم ہوجائے گا بعض اخبار نویسوں نے اسلامی ممالک کے نقطہ نظر کو جاننے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے او آئی سی کی جو تنظیم کسی زمانے میں تھی وہ اب دم توڑچکی ہے اسلامی ممالک میں سے ایران کا رد عمل سامنے آیا ہے ایران نے امریکیوں پر پابندی لگانے کا بر وقت اعلان کیا ہے کسی اور مسلمان ملک سے کسی مثبت ردّعمل کی اُمید اور توقع نہیں ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سچ بولتے ہیں سچ بولنے کا یہ چلن انہوں نے کا روباری تجربے سے حاصل کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ’’سب سے پہلے امریکہ ‘‘یہ ان کا حق ہے اور اس پر کسی کو اعترا ض نہیں کرنا چاہئے ان کی دوسری بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ممالک کو بھیک دے کر کیوں پالینگے ؟یہ بھی ان کا حق ہے وہ کس کو بھیک دیتا ہے کس کو بھیک نہیں دیتا یہ سراسر ان کی صوابدید پر منحصر ہے اس پر کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے دو اہم باتیں ہم بھول گئے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کو دونوں باتیں یا د ہیں پہلی بات یہ ہے کہ ری پبلکن پارٹی کے دور میں رونالڈ ریگن نے ان تنظیموں کو بڑے پیمانے پر امریکی ٹیکس گزار وں کے ڈالروں کی بھیک دی تھی جنکو رپبلکن کے دوسرے صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردقرار دیا القاعدہ ،الشباب ،اور بوکو حرام کے لیڈروں کو 1980 کے عشرے میں وائٹ ہاوس میں سرکاری دعوتوں پر بلایا جا تا تھا ڈونلڈ ٹر مپ کو یہ بھی یاد ہے کہ 1968 اور 1978 کے درمیان 10 سالوں میں امریکی ٹیکس گزاروں کا پیسہ ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خلاف بغاوت کو منظم کرنے پر خرچ کیا گیا ڈیڑھ ارب ڈالڑ خرچ کرنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آیا وہ امریکی توقعات کے برعکس تھا شاہ کے بارے امریکہ پالیسی ساز ’’کٹ ٹو سائز ‘‘کے فارمولے پر عمل کرتے تھے انقلابی حکومت نے پینترا بدل کر امریکہ کو شیطان بزرگ قرار دیا اور امریکیوں کو سفارت خانے کے اندر یر غمال بنا کر شاہ کی ساری دولت امریکہ سے واپس لے لیا یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے شاہ کو پناہ نہیں دی دوسری اہم بات جو ڈونلڈ ٹرمپ کو یا د ہے ہم بھول گئے ہیں وہ یہ ہے عرب بہار کے نام پر امریکہ نے مسلمان باغیوں پر 2 ارب ڈالر خرچ کئے نتیجہ امریکہ کے خلاف آیا مصر میں امریکہ کو دوبارہ مداخلت کرکے پھر ڈالر دے کر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بغاوت کرانا پڑا شام اور عراق میں امریکہ نے اپنے ٹیکس گزاروں کے پیسے پر داعش یا آئی ایس کو منظم کیا اس کا نتیجہ بھی امریکہ کے حق میں نہیں آیا یہ دونوں باتیں امریکی صدر کو یاد ہیں ہم نے ان کو بھلا دیا اب جو پابندی لگائی گئی ہے یہ ’’استاد اور شاگرد ‘‘کے درمیاں لڑائی ہے امریکہ استا دہے اور اُس نے اچھے دور میں اپنے مقاصد کے لئے دہشت گرد تنظیموں کی داغ بیل ڈالی دہشت تنظیموں کو منظم کیا ان کو بے تحاشا دولت دے کر حکومتوں کے مقابلے پر لایا ایک خود کش جیکٹ کی تیاری پر امریکی ٹیکس گزاروں کا 5 لاکھ ڈالر خرچہ آیا ہے اب امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے اپنی بنائی ہوئی تنظیموں پر مزید پیسہ خرچ کر نے کی ضرورت نہیں ڈونلڈ ٹرمپ جب کہتا ہے ’’سب سے پہلے امریکہ ‘‘تو وہ سچ کہتا ہے امریکہ کو سات سمند ر پار جا کر دہشت گر د تنظیم بنانے ،بغاوتوں کی آبیاری کرنے اور بہاروں کے نام پر خزانوں کے اوپر سرمایہ لگانے کی کیا ضرورت ہے ؟اگلے چار سالوں میں داعش ،القاعدہ ،الشباب اور بوکو حرام جیسی تنظیموں کو امریکی سر پرستی نہ ملی تو دہشت گر د ی ختم ہو جائیگی مسلمانوں پر جو داغ لگاہے وہ دُھل جائے گا کوئلے کی دلالی میں ہمارا منہ کالا نہیں ہوگا اس لئے یورپ اور امریکہ میں اس پر شدید ردّعمل سامنے آیا ہے امریکیوں کو پتہ ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں دہشت گردوں کے کیمپ قائم کئے شاعر نے کہا تھا ۔
اک اک ذرے پر دل رکھا ہے جاں رکھی ہے
ہم کو معلوم ہے کیا چیز کہاں رکھی ہے