کالمز

بلتی ثقافت اور سکرچن پروگرام

تحریر زاہد بلتی ستروغی یتو

ٓٓٓٓٓٓٓ بلا شبہ کسی بھی معاشرے کی پہچان وہاں کی ثقافت سے ہوتی ہے۔ کیونکہ لوگوں کے طرز زندگی، رہن سہن ، زبان اور اخلاق ہی کا نام ثقافت ہیں۔مگر دور حاضر میں سوائے کچھ قوموں کے بہت سارے لوگ اپنے تہذیب و ثقافت سے نا آشنا ہے۔اور ان کے آباؤ اجداد کے طرز زندگی صرف اور صرف تاریخ کاحصہ بنتی جا رہی ہے۔جس کی اصل وجہ لوگوں کے اپنے تہذیب اور ثقافت کو زندہ رکھنے میں کوتاہی برتنے کا نتیجہ ہے۔ زندہ قوموں کی مثال ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ اپنے ثقافت اور طرز زندگی کو اپنا تے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ نہ کہ ان قیمتی اثاثوں کو ماضی کا حصہ قرار دے کر آغیار کی طرز زندگی کو آپنانے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب سے حضرت انسان نے روئے زمین پر نت نئی ایجادات دریافت کرنا شروع کیا ہے تب سے اپنی پُرانی طرز زندگی ،ثقافت، رسم و رواج اور طورطریقے لوگوں کے ذہنوں سے اُوجھل ہوتے جا رہے ہیں۔ بحیثیت انسان ہمیں زندگی کے بھاگ دوڑ میں آسانی کے لئے اپنے تہذیب و ثقافت سے جوڑے رہنا ضروری ہے۔قوموں کی،ثقافت ،تہذیب و تمدن میں عروج و زوال آتی رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی پہچان ہی وہاں کے ثقافت اور تہذیب و تمدن سے ہوتا ہے۔لہذامعاشرے میں بگاڑ کی بو اُس وقت آناشروع ہو جاتی ہے جب اغیار کی طرز زندگی، رہن سہن اُس معاشرے پر غالب آتا ہے۔اور فرد اپنی زبان ، طرز لباس، اور دیگر رسم ورواج کو یکسر بھُلا کر بے بنیاد چیزوں کو اپنانا شروع کردیتا ہے۔بلاشبہ موجودہ طرز زندگی پرانے ادوار کے نسبت قدرِ بہتر اور سہل ہوئی ہے ۔ مگرجس رفتار سے آسائشوں نے زیست کو آسان اوروسیع کرتا گیااس سے کئی گناہ زیادہ پیچیدگیاں بھی پیدا کرتی گئی۔آج کے دور میں انسانی بھائی چارگی ، محبت اورخلوص بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔نفسانفسی کے عالم میں انسان روز بہ روز معاشرتی اور ثقافتی رسم و رواج سے کنارہ کشی اختیار کر تے جا رہے ہیں۔مگر ان سارے وجوہات اور مشکلات کے باوجود اگر کوئی اپنی ثقافت اور رسم ورواج کو زندہ رکھنے کے لئے پرعزم رہے اور اپنی استطاعت کے مطابق چراغ جلاتے رہیں تو یقیناًاُس معاشرے کی پُرانی یادیں اور ثقافتی اقدار پرکوئی آنچ نہیںآ سکتی ۔ ایساہی ایک مثال ’’ ریڈیو پاکستان سکردو‘‘ کی ہے۔ریڈیوپاکستان سکردو بلتستان کے لوگوں کے لئے نہ صرف باخبر رہنے کے لئے کلیدی کردار ادا کرتارہا ہے بلکہ تفریح کا بھی واحد زریعہ رہا ہے ۔مگر آج کے دور میں بے شمار تفریحی اور نشریاتی اداروں کی سہولیات کی وجہ سے لوگوں کے لئے ہر قسم کے تفریحی پروگرام دیکھنے اور سُنے کو ملتا ہے۔قبل ازانٹرنٹ ریڈیو پروگرامز صرف اور صرف اپنے علاقوں تک محدود رہتے تھے جس کی وجہ سے بلخصوص بلتستان کے دور دراز علاقوں سے اندرون اور بیرون ملک مقیم لوگ ان خوبصورت اور ثقافتی و تہذیبی پروگراموں سے محروم رہتے تھے ۔مگر انٹرنٹ کی آمد نے حالات یکسر بدل دی اور بلتستان جیسے دورافتدہ علاقوں میں بھی اس سہولت نے نئی تبدیلی لائی ہے ۔

آج کل 93 ،FM کی نشریات دنیا کے ہر کونے میں باآسانی سنی جا سکتی ہے۔اور پردیس میں مقیم ہر بلتستانی ان خوبصورت پروگراموں سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنے علاقائی ثقافت اور رسم و رواج کو بھی نت نئی انداز میں سُن کر دلوں میں خوشی و طمانت محسوس کرتے ہیں۔ ایساپروگرامز بلخصوص ان لوگوں کے لئے جن کوبلتی ثقافت سے بے پناہ محبت لگن ہے۔ لوگ جو بہت سالوں سے روزگار یا تعلیم کے غرض سے اپنے علاقے اور ملک سے دور زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے لئے براہ راست سکردو سے اپنی زبان میں بہت ہی عمدہ پروگرامز سُنے کو ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ FM93 پر RJ زہرہ بتول کی پروگرام’’سکرچن‘‘اور اپو سودے کے پروگرام ’’ لچنگرا‘‘ بیرون ملک مقیم بلتیوں کے دلوں کو چھو لیتی ہیں۔RJ زہرہ بتول کی پروگرام انتہائی قلیل عراصے میں مقبولیت کی حدوں کو چھو رہا ہے۔

دور حاضرمیں لوگوں کی ضروریات اور پسند کو ملحوض خاطر رکھتے ہوئے سرزمین بلتستان سے عمدہ پروگرام سُنے کو ملناتمام اہل علاقے کے لئے قابل فخر بات ہے۔ بلتستان کے ادب اور اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کرجس انداز میں تمام موضوعات پر روشنی ڈالتی ہے وہ یقیناًلائق تحسین ہے ۔وہ اپنی گفتگو اور میزبانی کی مہارت سے نہ صرف اپنے علاقے میں بلکہ انٹرنٹ پر سُنے والے اندرون اور بیرون ملک مقیم لوگوں سے بے پنا محبت اور خلوص سمیٹ رہی ہیں۔دوسری طرف اپو سودے کا شمار بلتستان کے نامورادیبوں میں ہوتا ہے ۔ اوروہ آج بھی اپنی پروگرام6363’’ لچنگرا‘‘ کی میزبانی کرتے ہوئے بلتستان کے ادب اور رسم و رواج کے بارے میں اپنے سُنے والوں کو معلومات اور تفریح سے بھری پروگرام کر رہے ہیں۔ ان کی علمی گرفت وسیع ہونے کی وجہ سے ان کی باتوں میں فساحت و بلاغت پائی جاتی ہے۔ ان کی فلسفیانہ گفتگو سُنے والوں کو بار بار ان کے پروگرام سُنے کو بے چین کر دیتی ہے۔ایسی پروگرامز کے ہونے سے اپنی ثقافتی اقدار اور ادب کے تعلیمات نئی نسلوں تک پہنچ رہا ہے۔ کیونکہ ثقافت اورہماری رسم ورواج ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی منتقل ہو جاتی ہے۔ بلتستان نہ صرف سیاحتی لحاظ سے دنیا میں مشہور ہے بلکہ یہاں کی ثقافت اور ادب بھی اپنی مثال آپ ہے۔یہاں کے لوگوں کی معاشرتی رہن سہن جن میں ، تفریحی نظا م ، مہمان نوازی، زبان کا استعمال ، مذہبی رسومات کی ادائیگی ہر ایک اخلاقی اقدار سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر افسوس اس امر کاہے کہ اس علاقے کے لوگ دوسرے رسم و رواج کو اپنی ثقافت پر ترجیح دیتے ہیں۔جو کہ ہماری نئی نسل کو اپنی اصل ثقافت سے محرم کر نے کے مترادف ہیں۔لہذا ہمیں ہر ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے اپنی تمام تر کوششیں ثقافت کو اجاگرکرنے اور مظبوط حکمت عملی کے تحت لوگوں کو متوجہ کراتے رہے ہیں

راقم اپنی ٹو ٹی پھو ٹی انداز میں انٹرنٹ پربراہ راست بلتی ثقافتی پروگرام’’ زاہد ستروغی یتو ‘‘کے نام سے چلا رہا ہے ۔ جہاں روزانہ بلتی ثقافتی پروگرام مختلف انداز میں پیش کرتے رہتے ہیں۔لہذہم سب کو اپنی ثقافت رکھوالے بن کر اسی کو فروغ دینے کہ اشد ضرورت ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button