کالمز

جی بی حکومت کا انقلابی قدم اور کچھ بیمار ذہنوں کا تذکرہ

رشید ارشد

قار ئین ۔اک طویل غیر حاضری کے بعد ٹوٹے پھوٹے لفظوں کی کہانی کے ساتھ ایک دفعہ پھر حاضر خدمت ہوں۔ اس طویل غیر حاضری کی وجوہات اگرچہ بہت سی ہیں، لیکن ایک وجہ بتا ہی دوں کہ جب بھی قلم اٹھاتا ہوں تو بیمار معاشرے اور بیمار ذہنوں کی وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ جن میں ہر آن دلیل و برہان سے خالی طعنے ہوتے ہیں۔ سوچتا ہوں ہم بھی کیسے بیمار معاشرے کے فرد ہیں کہ جہاں ہر چیز کے ساتھ ساتھ صحافی کی تحریر بھی تقسیم ہے۔ اپنے اپنے ہیرو تو اپنے اپنے شہید اور اپنا اپنا سچ ہے۔ صحافی کی تحریر ،مولوی اور سیاست دان کی تقریر کسی کے حق میں تو کسی کی مخالفت میں ہوتی ہے۔ عجب تماشا ہے کہ جن کے حق میں جائے وہ تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور جن کی مخالفت میں جائے وہ طعنوں سے نوازتے ہیں۔ حالانکہ صحافی وہی کہانی لکھتا ہے جو معاشرے کی کہانی ہو۔ اسی معاشرے کی کہانی کو کچھ لوگ سچ کہتے ہیں اور کچھ جھوٹ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جھوٹ ہے تو سچی دلیل لا کر تحریر کو رد کیا جائے۔ اگر سچ ہے تو تسلیم کیا جائے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے جہاں دلیل ختم ہو وہاں بہت ہی آسانی سے الزام لگا دیا جاتا ہے۔

بیمار معاشروں کا وطیرہ ہے کہ ہر اچھی سہولت کا بھی استعمال غلط کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے استعمال سے تعمیر کا کام لیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں بیمار زہن کے بیمار لوگ تخریب کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ میرے پچھلے کالم، وزیر اعلی صاحب ایسے نہیں چلے گا ،پر سوشل میڈیا اور مختلف فورم پر ان بیمارذہنوں نے طوفان بدتمیزی برپا کیا۔ ایک سیاست دان نے تو براہ راست الزام عائد کیا کہ رشید ارشد کو حکومت سے بھاری مراعات ملتی ہیں۔ حالانکہ یہ وہی سیاستدا ن ہیں جو میرے کالموں پر زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ کیونکہ ان کے اچھے کارناموں کا زکر ہوتا تھا۔ میرا اس سیاستدان سے سوال ہے کہ آپ پانچ برس تک گلگت بلتستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے ان پانچ برسوں میں میں آپ کے دربار میں ایک دفعہ بھی حاضر ہوا ہوں یا آپ کے دربار سے ایک آنہ کا فائدہ لیا ہے تو بتاو۔ اگر نہیں تو آپ نے کیسے کہا کہ موجود حکومت سے میں مراعات لیتا ہوں۔۔ تف ہے آپ کی سوچ پر ،آپ کو یاد نہیں کہ ابھی کچھ دن قبل ہی اسی حکومت کے خلاف ایک کالم لکھا تو آپ نے فون کر کے مجھے شاباش دی اور دوسرا کالم لکھا تو آپ نے الزام عائد کیا۔ آپ کی سوچ یکسر غلط ہے کہ ہم آپ کی یا کسی اورکی خواہشات پر لکھیں۔جو ہم محسوس کریں گے وہی تحریر کریں گے۔
اگر خلاف ہیں، ہونے دو ،جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے ،کوئی آسمان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ منہ میں تمہاری زبان تحوڑی ہے

موجودہ حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف بھی کریں گے اور ہر عوام دشمن قدم کی مخالفت کریں گے ، مراعات نہ آپ کی حکومت سے لیا تھا تو نہ اس حکومت سے۔ خیر یہ بات طویل ہو گئی اس موضوع پر پھر کسی نشست میں سیر حاصل گفتگو ہوگی۔

اب ذرا گلگت بلتستان حکومت کے ایک انقلابی قدم کا بھی ذکر کریں۔ گلگت بلتستان میں توانائی منصوبوں کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کے لئے چا ئنیز کمپنی کے ساتھ معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ میرٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں وزیر اعلی گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کی گنجائش ہے لیکن ماضی میں کسی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ زبانی کلامی تو ہم کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں ہزاروں میگاواٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہے لیکن جب ہم سے فزیبلٹی رپورٹ طلب کی جاتی ہے تو وہ ہمارے پاس نہیں۔ اسی مقصد کے لئے چائنیز کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے کہ یہ کمپنی مفت فزیبلٹی رپورٹ تیار کرے گی اور پھر اسی رپورٹ کی روشنی میں گلگت بلتستان میں توانائی کے منصوبوں پر کام کا آغاز ہوگا۔

گلگت بلتستان حکومت کا یقیناًیہ ایک انقلابی اور روشن مستقبل کی طرف اہم قدم ہے۔ گلگت بلتستان کو قدرت نے بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے۔ ان خزانوں کو بروئے کار لانے کے لئے ویثرن سے بھر پور سیاسی قیادت کی ضرورت تھی تو اس حوالے سے وزیر اعلی حفیظ الرحمان کے شدید ترین سیاسی مخالفین بھی اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ موجودہ وزیر اعلی گلگت بلتستان کے روشن معاشی مستقبل کے حوالے سے بھر پور ویثرن رکھتے ہیں۔ میرٹ ہوٹل کی اس تقریب سے راقم کو گلگت بلتستان کے معا شی مستقبل کی ایک روشن جھلک وزیر اعلی کی تقریر میں نظر آئی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سیاسی مخالفین روڑے نہ اٹکائیں تو اپنے دور اقتدار میں گلگت بلتستان کی معاشی سمت کا بہترین تعین کرنے میں کامیابی حاصل کریں گے۔ گلگت بلتستان میں اگر 60ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گلگت بلتستان کو نیشنل گرڈ سے منسلک کر کے بجلی کی پیداوار شروع کی جائے تو گلگت بلتستان اور ملک کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کو بجلی فراہم کر کے کثیر مقدار میں بجلی دوسرے ہمسایہ ممالک کو فروخت کی جا سکتی ہے۔ چین کی کمپنی کے ساتھ ہونے والا یہ معاہدہ عام لوگوں کی نظر میں ایک روایتی معاہدہ ہوگا لیکن یہ معاہدہ گلگت بلتستان کے معاشی مستقبل کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔ گلگت بلتستان کے لئے اقتصادی راہداری کی صورت میں قدرت نے ایک نعمت عطا کی اسی نعمت کے تحت گلگت بلتستان کا سیاسی مستقبل بھی سنور سکتا ہے اور معاشی مستقبل بھی لیکن شرط یہ ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے عوامی مفاد کو مد نظر رکھیں۔ اس حوالے سے حکومت کو بھی برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا اور اپوزیشن پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ روایتی مخالفت کا جھنڈا اٹھانے کے بجائے ہر اچھے قدم پر حکومت کی حوصلہ افزائی کرے۔ اگر اب بھی ہم گزشتہ ستر برسوں کی طرح تنقید برائے تنقید کا وطیرہ اپنائیں گے تو وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ،قیادت کا امتحان آچکا ہے اور ہر اچھی قیادت وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر قوم کا مستقبل سنوارتی ہے۔

گلگت بلتستان کے لئے اقتصادی راہداری کی صورت میں قدرت نے ایک نعمت عطا کی اسی نعمت کے تحت گلگت بلتستان کا سیاسی مستقبل بھی سنور سکتا ہے اور معاشی مستقبل بھی لیکن شرط یہ ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے عوامی مفاد کو مد نظر رکھیں ،اس حوالے سے حکومت کو بھی برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا اور اپوزیشن پر بھی بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ روایتی مخالفت کا جھنڈا اٹھانے کے بجائے ہر اچھے قدم پر حکومت کی حوصلہ افزائی کرے،اگر اب بھی ہم گزشتہ ستر برسوں کی طرح تنقید برائے تنقید کا وطیرہ اپنائیں گے تو وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ،قیادت کا امتحان آچکا ہے اور ہر اچھی قیادت وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر قوم کا مستقبل سنوارتی ہے ،یہ وقت زاتی عناد اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کا نہیں قوم کا مستقبل سنوارنے کا ہے ،

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button