کالمز

دیامر میں دیرینہ دشمنیوں کے بنیادی اسباب (۲)

تحریر ۔اسلم چلاسی

شعوری طور پر نا بلد یا پیدائشی جزباتیت –کہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو انا کامسلہ بنا نا، پھر اس میں مخالفین اور حمایتیوں کا گروہ بنا کر بات کو طول دیکر کھنچا تانی کا نام مقابلہ ہے۔ اگر حریف سچ اور حق بات بھی کہتا ہے تو اس کی مخالفت کرنے میں عظمت اور بہادری تصور کیا جاتا ہے۔ میرے باپ نے دادا نے اتنے قتل کیے تھے جیسا کہ کوئی بہت ہی نیک کام کیا ہو۔ محفلوں میں بیٹھکوں میں کچھ لوگوں کا تو ایک ہی کام ہے کہ کس نے کس کو قتل کیا۔ کتنے قتل کیا، کب قتل کیا، کس قتل کا بدلہ کتنے سال بعد لیا، کس نے خون معاف کیا، کس نے ایک کے بدلے کتنے قتل کیا، کس کا حساب کس پر رہتا ہے، کس علاقے میں کن کی دشمنی کتنی سال رہی، دوران دشمنی کیا کیا حالات و واقعات پیش آئے، کس علاقے میں کون سی دشمنی میں سب سے زیادہ خون خرابہ ہوا، مرنے والے اور مارنے والوں کے نام پیشہ اور خاندان عادات و سکنات تسبیح کی دانوں پر ایسا ورد ہوتا ہے جیسا کہ کوئی نیکی کا کام ہو اور ہر لفظ پر ثواب دارین حا صل کیا جاتا ہو۔ اس قسم کے لوگ ہر جگہ قصہ خوانی کے طور پر مشہور ہیں۔ یہ لوگ اس فن کا مظاہرہ ہر جگہ کرتے ہیں جہا ں بچے، بڑھے، بزرگ، نو جوان جو بھی ہو یہ اپنے فن کے ساتھ پیش ہوتے ہیں۔ کچھ حقائق کچھ اپنی طرف سے گڑی ہوئی مفروضات پیش کرتے ہیں۔ جس سے نوجوان اور بچے بری طرح متا ثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ زمانہ قدیم میں سپاہ گری کے تربیت بچے کی ابتدائی ایام سے بہادری کے قصے سنا سنا کر دیے جاتے تھے اسی طرح کچھ لوگ چو پالوں میں آج بھی بچوں اور نو جوانوں کے زہنوں کو خراب کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جو بچہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں قتل و غا رت گری کے کہانیوں کو روز سنتا ہے وہ بھی بڑے بزرگوں سے انتہائی فخریہ انداز میں تو اس کا زہن فلسفیوں اور پرو فیسروں کا تو نہیں بنے گا۔ ظا ہر ہے اس کے زہن میں شدت پسندی بیٹھ جا ئے گی۔

کئی والدین اپنے بچوں کو خود ہی قتل و غارت کی تربیت دیتے ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں کو یہ کہے کہ فلاح شخص نے دس سال کے عمر میں قتل کیا تھا تم اتنا بڑا ہو کر ایک من لکڑی نہیں لا سکتے ہو یا فلاح کا سر نہیں پھوڑ سکتے ہو۔ نتیجہ کے طور پر بچہ احساس کمتری کے ساتھ شتدت پسندی کی طرف مائل ہوا۔ اب یہ بچہ اپنے آپ کو آزمانے کی کوشش کرتا ہے۔ گلی محلوں میں ایک دو ٹیسٹ کیس واردات کی شکل میں کر دیتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں حو صلہ افزائی ہوتی ہے ایک دو کے سر پھوڑ دیا، کسی کے دروازے توڑ دی، چوری چکاری کی، آہستہ آہستہ انڈہ چور مرغی بچھڑہ بھنس چور سے ہو تے ہوئے زمانہ عروج قتل و غارت تک پہنچتا ہے۔ پڑوسی عزیز رشتہ دار یا کوئی ہمدرد شکایت کر ے کہ تمہارا بچہ غلط راستے پر ہے تو باپ کا جواب ہو تا ہے یہ شرافت کا زمانہ نہیں ہے، ایک دو خا ندان میں ایسے بھی ہو نے چاہیے۔ گویا کہ ایک چور سے قاتل تک کے سفر میں گاؤ ں کے قصہ خواں بزرگ سے لیکر والدین تک سب کے سب برابر کے شریک ہو تے ہیں۔ جس معاشرے میں شرافت کو بے غیرتی سمجھا جائے، قاتل کو بہادر ی کے سند دیکر جگہ جگہ ان کے چر چے ہو تو یقینی بات ہے شتدت پسندی پروان چڑھے گا۔

دوسری طرف ایک گروہ ایسا بھی ہے جو پرانے قبروں کو کھودنے کا کام کرتے ہیں جیسا کہ بیس سال قبل کوئی دشمنی اختتام پزیر ہو ئی ہے، دیت کی ادائیگی کرکے قاتل اور مقتول کے لواحقین ایک دوسروں کو معاف کر چکے ہیں۔ مگر یہ لوگ ان کو معاف نہیں کرتے، طعنہ زنی کے زریعے کہ فلاح اتنا بزدل آدمی ہے کہ اس نے پیسے لیکر اپنے بھائی باپ یا رشتہ دار کا خون معاف کیا ہے۔ جگہ جگہ اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جب وہ کہیں جاتا ہے کسی محفل میں بیٹھ جاتا ہے حتی کہ کوئی اچھا لباس بھی زیب تن کرتا ہے تو کہتے ہیں دیکھو اس کو ، اپنے بھائی باپ کا خون معاف کیا ہے ابھی ڈریسنگ کیسے خوب کرتا ہے۔ گویا اس کو چلنے پھرنے بات چیت کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ آگے چلتا ہے تو پیچھے سے دو چار باتیں شروع کرتے ہیں۔ آخر مجبور ہو کر بیس سے پچاس سال تک کے پرانے مردوں کی کہانی میں ایک نیا قبر کھد جاتا ہے۔ اب مرنے والے کا کوئی گناہ نہیں ہوتا ہے اور مارنے والا تو قاتل ہے مگر اس کو قتل پر مجبور کرنے والے قاتل معاشرے میں بڑے عزت دار کہلاتے ہیں۔ یہی عزت دار لوگ ایک قتل کے بعد دوسرے قتل پر اکساتے ہیں ۔اب دو گھرانوں کی یا خاندانوں کی آپس میں معاملہ ہے اور بات درگزر تک آ پہنچتی ہے تو ایک گروہ دوبارہ منافقت کیلے کود پڑتا ہے۔ ایک کی بات کو بڑھا چڑھا کر دوسرے کو پیش کیا جاتا ہے کہ وہ تو کہتا ہے کہ اس کے دو چار اور کو بھی مارو دونگا تو عقل ٹھکانہ آ جائے گا یا اس نے اب تک کیا کیا ہے تو آگے جا کر کیا کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے منا فقت سے بات صلح تک پہنچنے کے باوجود واپس قتل وغارت پر کھڑی رہتی ہے۔ میرے تحقیقات کردہ ایک سو دیرینہ دشمنیوں میں سے ایک درجن دشمنیوں میں اسی طرح کے غلط فہمیاں مو جود ہیں۔ ایک فریق کہتا ہے کہ دوسرے فریق نے فلاں وقت یہ کہا تھا جبکہ دوسرا فریق انکار کرتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ ہر ایک کا موقف دوسرے سے مختلف ہے۔ ہر فریق اپنے آپ کو مظلوم ٹھہراتا ہے جبکہ دوسرے کو ظالم۔ اس میں بھی اس تیسری پارٹی کا ہاتھ ہو تا ہے۔ وہ ظالم کو بھی کہتے ہیں کہ آپ تو مظلوم ہے بس آپ کے ہاتھ سے صرف دو چار قتل ہو گئے ہیں یہ اللہ کو منظور تھا فلاں کے بیٹے کی موت آپ کے ہاتھوں لکھی تھی اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے سب خدا پر ہی ڈال دیتے ہیں جس سے اگلا اپنے آپ کو بلکل فرشتہ سمجھنے لگتا ہے۔۔

جاری ہے۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button