رشید ارشد
سیاسی جماعتیں ہیں یا منافع بخش کمپنیاں کہ جن کے جتنے شئیر ہوں اتنا منافع کمائیں۔ پہلے سیاسی جماعتیں نظریات اور کارکنوں کے چندے سے چلتی تھیں۔ اب ہر سیاسی جماعت میں،اے ٹی ایم مشینوں، کا ہونا، ضروری ہے۔ میرے بہت سے دوست اور بزرگ جہاں ملیں یہی رونا روتے ہیں کہ ہم نے جماعت کے لئے اس وقت قربانیاں دیں جب جماعت کے لئے مشکل وقت تھا۔ اب جماعت پر اچھے دن آئے تو عہدے اور مراعات ان لوگوں کو ملتے ہیں جن کا جماعت سے دور دور کا تعلق نہیں۔ کوئی دولت کے بل بوتے پر تو کوئی سفارش اور تحفے تحائف کے زور پر آئے ہیں۔ ان کا رونا دھونا دیکھ کر مجھے ہنسی بھی آتی ہے،غصہ بھی اور رحم بھی۔ لیکن کیا کروں ان کے جذبات کے احترام میں ہوں،،، ہاں،،، میں جواب دیتا ہوں۔ نہ معلوم نظریات کے سبق یاد کر کے اپنی زندگیاں برباد کرنے والے یہ لوگ کس دور میں جی رہے ہیں۔ شاید انہیں خبر ہی نہیں کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ وہ دن گئے کہ جب سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکنوں کی قدر ہوا کرتی تھی۔ وہ دن گئے کہ جب جماعتوں میں خون دینے والے مجنوں کو مقام دیا جاتا تھا۔ اب وہ دن نہیں کہ نظر یاتی سیاست کریں۔ اب تو،،نظر آتی،،سیاست کا دور ہے۔ اب خون دینے والے مجنوں کی جگہ دودھ پینے والے مجنوں آگئے ہیں۔ نظر یاتی اور قربانی دینے والے کارکن صرف الیکشن کے دنوں میں گھر گھر جا کر فریادیں کرنے اور نعرے لگانے کے کام آتے ہیں۔ جیسے ہی الیکشن ختم ہوں ان کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اے ٹی ایم مشین،سفارشی مجنوں،مالشئے، درباری آداب اور خوش آمدی میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کا دور شروع ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کھیل ختم پیسہ ہضم کے مصداق، الیکشن کے بعد یہ کارکن اپنا اپنا کوئی روزگار کریں اور اپنے بال بچوں کا سوچیں،لیکن ان کے سر پر نظریات کا جنون سوار ہوتا ہے اور دربار شاہی کے چکر اس امید پر لگاتے ہیں کہ شاید اس بازار میں نظریات کا سودا بک رہا ہو۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ نظریات کا بازار الیکشن کی رات سے ہی بند ہونا شروع ہوتا ہے اور اس دن کے بعد سے اگلے الیکشن کے شروع ہونے تک مفادات کا بازار سجتا ہے،، اس بازار میں نظریات کا نہیں مفادات کا سودا بکتا ہے۔
کیا تماشا ہے،کیا بے رخی اور کیا تکبر ہے الیکشن سے پہلے جن نام نہاد لیڈروں کو ان کے گھر والے ووٹ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے اور کارکنوں کو اپنی جیت کے لئے استعمال کرنے والے جب عہدوں پر برا جمان ہوتے ہیں تو ان کارکنوں کو پہچاننے سے بھی منکر ہوتے ہیں۔ جن کی دن رات تعریفیں کرتے تھے اور کارکن جب ملنے ان کے دربار میں جاتے ہیں تو پہلے تو شاہی دربان اندر جانے نہیں دیتے ہیں اندر پہنچتے بھی ہیں تو صاحب بہادر اس قدر تکبر سے ہاتھ ملاتے ہیں کہ ان کارکنوں کو گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ وہ رہنما نہیں جو الیکشن سے پہلے انہیں مائی باپ کہتے تھے۔ تف ہے ایسی سیاست اور ایسی رہنما ئی پر۔
خیر تمہید کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی یہ تو پرانی سیاسی جماعتوں کی کھتا ہے۔ ایک جماعت نئی آئی تھی،آئی تھی اور چھائی تھی۔ اس کا دعوی تھا کہ تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔ روایتی جماعتوں سے اکتائے نظریاتی کارکنوں کو تپتی دھوپ میں سایہ نظر آیا تو جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے۔ اچھے کردار اور بے داغ ماضی کے بہت سے رہنما گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف کی شفافیت،نظریات سے کمٹمنٹ دیکھ کر شامل ہو گئے۔ یہ تحریک انصاف کے ابتدائی دن تھے۔ گلگت بلتستان کی سیاست پاکستان کے دیگر صوبوں کی سیاست سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں ہر چیز تقسیم ہے۔ ایسے گنجلک ماحول میں کچھ لوگوں نے جھنڈا اٹھایا کہ جب ایک طبقہ تحریک انصاف کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتا تھا اور دوسرا طبقہ اسے طالبان کا حامی کہتا تھا،ان مشکل حالات میں گلگت بلتستان کے مشہور ادیب تاریخ دان اور سیاسی رہنما حشمت اللہ خان،عبد الطیف و دیگر اچھے کردار کی شخصیات نے تحریک انصاف کو گلگت بلتستان میں عوامی جماعت بنانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا۔ عبد الطیف تو الیکشن سے پہلے ہی تحریک انصاف میں قبضہ گروپ سے اکتا گئے۔ ان کی قربانیاں پانی بہا لے گیا اور جماعت کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ ن کے آشیانے کے ہو گئے لیکن حشمت اللہ خان کشتی پر چڑھ کر نظریاتی کارکنوں کے ساتھ چپو چلاتے رہے۔ ایک نئی نویلی جماعت کو عوامی جماعت بنانے کے لئے گاؤں گاؤں اور گھر گھر جا کر پیغام پہنچایا اور انتخابات میں اس نئی نویلی جماعت کو گلگت بلتستان کی ووٹ کے حوالے سے دوسری بڑی جماعت بنانے میں کامیاب ہو گئے،حشمت اللہ خان نے نئی پیدا ہونے والی نظریاتی جماعت کو اس قابل بنایا کہ گھٹنوں کے بل چل سکے لیکن جیسے ہی انتخابات کا موسم گیا تونظریات بھی ہوا ہو گئے اور قربانیاں بھی گہری کھائی میں گرا دی گئیں۔
ہم تبدیلی کا خواب لیکر آئے ہیں اور نئے پاکستان کی تعمیر کریں گے، کرپشن چور بازار ی ختم کروائیں گے اور انصاف کو یقینی بنائیں گے کے نعرے لگانے والی اعلی قیادت کو اپنی اس نظریاتی ٹیم میں کوئی اے ٹی ایم مشین نظر نہیں آئی یا شاید تبدیلی کا نعروہ لگانے والی جماعت کو نظریاتی کارکنوں اور قربانی دینے والے رہنماؤں کی جگہ ریس میں جتنے والے گھوڑوں کی ضرورت تھی، چاہے وہ کسی بھی سیاسی اصطبل سے کرپشن کا چارہ کھا کھا کر آئے ہوں۔ سب کچھ بدل گیا، نئے نئے لوگو ں کو عہدے دئے گئے اور پرانے نظریاتی کارکنوں سے کہا گیا کہ فی الحال نظریاتی سودے کی مارکیٹ بند اور نظر آتی کی مارکیٹ عروج پر ہے۔ خیر بات طویل ہو گئی تحریک انصاف اقتدار میں نہیں آئی اس کا گلگت بلتستان میں یہ حال ہوا کہ نظریاتی کارکنوں اور قربانی دینے والے رہنماوں کی جگہ،اے ٹی ایم مشینوں،تحفہ مافیا،سفارش ما فیا اور خوش آمد مافیا نے لے لی تو اقتدار میں آتی تو کیا ہوتا۔ اللہ کی پناہ،انٹرا پارٹی انتخابات کرا کر نظریاتی کارکنوں کو عزت اور عہدوں سے نوازنے کے بجائے اسلام آباد اور بنی گالہ کے محلوں سے فیصلے سامنے آگئے۔
اہم عہدوں سے نظریاتی کارکنوں کو مکمل پرہیز کا مشورہ دیا گیا۔ ایسے میں میرا حشمت اللہ خان اور دیگر نظریاتی رہنماؤں اور کارکنوں کو یہی مشورہ ہوگا کہ چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ۔ اب نظریات اور قربانیوں کی داستان اس جماعت میں بھی قصہ پارینہ بن گئی۔ یہ جماعت بھی دیگر جماعتوں کی شاگردی میں آچکی ہے اور اب یہاں اے ٹی ایم مشینوں اور ْقبضہ گروپوں کا راج ہوگا۔ نظریات کے کشتی میں سوار ہو کر مفادات کے سمندر میں چپو چلانے سے یہ کشتی کنارے نہیں لگے گی۔ بہتر یہی ہوگا کہ نظریات کے لئے کفن دفن کا انتظام کیا جائے ۔۔نظریات کا جنازہ ہےذرا دھوم سے نکلے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button