کالمز
سول بیوروکریسی کا زوال
کیا وجہ ہے کہ سرکاری ریسٹ ہاؤس رہنے کے قابل نہیں ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ سرکاری محکموں میں سیاسی یا فوجی مداخلت کے بغیر روٹین کا کوئی کام نہیں ہوتا ؟ کیا وجہ ہے کہ سرکاری محکموں کی طرف سے تیار کئے گئے منصو بے پر اونیشنل ڈیو لپمنٹ ورکنگ پارٹی PDWP ، سنٹر ل ڈیو لپمنٹ ورکنگ پارٹی CDWP اور ایگز یکٹیو کمیٹی آف نیشنل اکنا مک کونسل ECNEC سے باربار مسترد ہوکر واپس آتے ہیں ملازمین کی ترقی کے منصو بے ڈیپارٹمنٹل پر وموشن کمیٹی سے بار بار نا منظور ہو کر واپس آجاتے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ صوبائی پبلک سروس کمیشن اور وفاقی پبلک سروس کمیشن پرکسی کا اعتماد نہیں رہا ؟ اتنے بڑے اداروں کی کارکردگی پرشک کیا جاتا ہے کیا وجہ ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو ڈیپا رٹمنٹ کی بنائی ہوئی عمارت 5 سال کام نہیں دیتی ؟ کیا وجہ ہے کہ سول انتظا میہ نے عوام کا اعتماد اور اعتبار کھو دیا ہے ؟ مختار مسعود ، روئید اد خان ، شعیب سلطان خان اور ڈاکٹر صفدر محمود کی کتابوں میں اس پررروشنی ڈالی گئی ہے شہاب نامہ کے مطالعے سے بعض دریجے وا ہو جاتے ہیں سید مظہر علی شاہ کی تحریرو ں میں بھی مواد مل جاتا ہے سوال یہ ہے کیا سول بیوروکریسی کو زوال آگیا ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں ؟
یہ موازنہ اور مقابلہ نہیں صرف مثال ہے سرحد رورل سپورٹ پروگرام SRSP نے لو اری ٹنل پر دیر کی طرف وٹینگ روم بنا کر ڈی سی آفس کے حوالے کیا ،چترال سائیڈ پر ویٹنگ روم کا انتظام چترال سکاؤٹس کو دید یا چار سال ہوگئے چترال سکاؤٹس نے انتظار گاہ کو بہتریں حالت میں رکھا ہے بہترین سہولیات موجود ہیں آ گ کا بند وبست ہے کینٹن کی سہولیت ہے واش روم صاف ستھر ے ہیں زنامہ انتظار گاہ موجود ہے نماز کی جگہ موجود ہے مسافرایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ اپنے ارام دہ گھر میں ہو دیر کی سول انتظامیہ نے ویٹنگ روم کو تباہ و برباد کر دیا ہے کوئی سہولت دستیاب نہیں مسافر کہتے ہیں کہ کاش یہ بھی چترال سکاؤٹس ، دیر سکاؤٹس یا فوج کی کسی یونٹ کے پاس ہوتا !
چترال کے مقام گرم چشمہ میں 1973 ء میں گورنر ہاؤس تعمیر کیا گیا تھا 40 سالوں میں اس کے فرنیچر ، فرش ، غسلخا نے ، پردے اور دیگر سامان کا کباڑہ ہوگیا ہے 1976 ء میں بھٹو نے وہاں قیام کیا تھا 1980 ء میں جنرل ضیا ء الحق اور جنرل فضل حق نے وہاں قیام کیا 1992 ء میں میاں نواز شریف نے وہاں قیام کیا اب اُس جگہ کوئی ٹرک ڈرائیور یا موٹر مکینک بھی ٹھہر نا پسند نہیں کریگا پشاور صدر میں ار ٹلری آفسیرز میس 100 سال پرانا ہے اس کی دیکھ بھال ،اس کا انتظام ایسا ہے کہ وی آئی پی کے رہنے کے قابل ہے اس کے مقابلے میں سول آفیسر ز میس کو بنے ہوئے 20 سال بھی نہیں ہوئے آج گریڈ 17 کا افسیر وہاں ایک دن یا دو دن رہنے سے انکار کرتا ہے اور درخواست کرتا ہے کوئی معقول جگہ دید و کیونکہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے آخر ایسا کیوں ہے؟ انگریز وں نے 70 سال پہلے جو عمارتیں فوجی حکام کے حوالے کیں وہ ٹھیک ٹھاک حالت میں ہیں جن عمارتوں کا انتظام سول انتظامیہ کے حوالے کیا گیا وہ کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ایسا کیوں ہوا ؟
کچھ لوگ کہتے ہیں فوج کے پاس پیسہ ہے ، فنڈ ہے وسائل ہیں مگر یہ سچائی نہیں سچائی یہ ہے کہ فوج کے پاس سلیقہ ہے ،انتظام ہے، نظم و نسق ہے سول انتظامیہ کے پاس ان تین چیزوں کی کمی ہے فنڈ اور پیسہ بہت ہے اس کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سیاسی اور فوجی مداخلت نے سول بیوروکریسی کو تباہ کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ سول بیوروکریسی کی بربادی کے بعد مجبوراً فوج کو بھی مداخلت کی ضرورت پیش آئی ،سیاستدانوں نے بھی خالی جگہ کو پرُ کرنے کی کوشش کی اور موقع کو غنیمت جان کر پورا فائد ہ اُٹھا یا یہاں مرغی پہلے یا انڈا کی بحث بے معنی ہے
1958 ء میں ما رشل لاء آیا تو ایم آر کیانی سول سروس ایسو سی ایشن کے صدر تھے ایسو سی ایشن کے سالانہ ڈنر پرانہوں نے جنر ل محمد ایوب خان کو دعوت دی اور خطبہ استقبا لیہ میں ما رشل لا ء ایڈ منسٹر یٹر کو خوب جلی کٹی سنائی کھر ی کھری سنا کر دل کی بھڑاس نکالی شعیب سلطان خان اور رو ئیداد خان اُس وقت نوجوان افسروں میں شمار ہوتے تھے یہ پاکستان کی سول سروس کا شاندار دور تھا اس کا زوال کب شروع ہوا ؟ اس بارے میں تین قسم کی باتیں گردش میں ہیں پہلی بات یہ ہے کہ بھٹو کے دور میں لیٹرل انٹر ی کے ذریعے لوگوں کو سول سروس میں بلا استحقاق داخل کیا گیا یہ زوال کا پہلا قدم تھا جنرل ضیا ء نے فوجی افیسروں کو سول سروس کے عہد وں پر فائز کر کے اُن کے ہاتھوں میں سارے اختیارات دیدیے یہ دوسرا قدم تھا جنرل مشرف نے ضلعی انتظا میہ میں توڑ پھوڑ کر کے سول سروس کے افیسروں پر کاری ضرب لگائی یہ تیسرا قدم تھا تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے سول سروس نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ’’ کچھ سانوں وی مرن دا شوق سی ‘‘ کا عملی مظاہر ہ کیا پبلک سروس کمیشن کے معیار کو گرادیا ، والٹن اکیڈیمی اور نیپا(NIPA) کے معیار کو زمین بوس کردیا جس کے نتیجے میں عبداللہ ، ،شعیب سلطان خان ، روئیدار خان ،جاوید مجید اور ڈاکٹر صفدر محمود کی طرح کے افیسروں کا راستہ بند ہوا اوسط درجے کے لوگ یا میڈیا کر (Mediocre) طبقے کے لوگ سول سروس میں داخل ہوگئے انہوں نے سیاستدانوں اور فوجیوں کی چا یلو سی شروع کی نتیجہ یہ ہوا کہ سول سروس کا وقار مجر وح ہوا سیاستدانوں کو بھی راستہ ملا فوجیوں کو بھی راستہ ملا
سول سروس کے وقار کو بحال کرنے کے لئے ریکروٹمنٹ اور تربیت کے معیار کو بلند کر نا ہوگا اعلیٰ ذہانت کے لوگ بہترین تربیت حاصل کر کے آئینگے تو سرکاری عمارات اورسرکاری سہولیات کا معیار بھی بلند ہوگا سروس ڈیلیو ری کا نظام بھی بہتر ہوگا پھر فوج اور سیاستدانوں کی مداخلت کا شکو ہ نہیں ہوگا ہرجگہ خوبی نظر آئیگی ہر جگہ معیار نظر آئے گا
وہی دیر ینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشا ط انگیز ہے ساقی