اتوار ۱۳ فروری ۲۰۱۷ ء کو فیصل مسجد اور مر غ زار چڑیا گھر اسلام آباد جانے کا موقع ملا ۔ فیصل مسجد جو دو ، سربراہوں شاہ فیصل اور ذولفقار علی بھٹو کی یاد کو بھی تازہ کرتی ہے اور دو اسلامی مملکتوں کی دوستی کی بھی ایک نشانی ہے ۔اس مسجد کے نبے ہوے بہت زیادہ عر صہ تو نہیں ہوا لیکن مجھے یہ دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ اس کے نیلے پتھر کے بنے ہوے فرش جگہ جگہ سے خراب ہو رہا ہے اور کھردرے یعنی چھوٹے چھوٹے سوراخوں کی طرح نظر آتے ہیں اور اس کی وہ خوبصورتی نہیں رہی جو تھی یا ہو نا چاہیے تھا اس کی چمک ماند پڑ گئی ہے ۔ اور یہ سب کچھ پاکستانیوں کی اپنی بے احتیاطی کی وجہ ہے، میں نے یہ نوٹ کیا کہ مسجد کے لمبے چوڑے صحن میں جگہ جگہ لوگ ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہو ے ہیں اور کھانے پینے کی اشیا سامنے بکھیر کر کھانے پینے میں مصروف ہیں لیکن افسوس اس بات کا کہ جب اُٹھتے ہیں تو کھانے پینے کی اشیاء جگہ جگہ کچھ نہ کچھ چھوڑکر جاتے ہیں ، جگہ جگہ چپس کے ٹکڑے، مالٹے کے چھلکے، چیونگم کے کاغذ، بسکٹ کے کاغذ اور ٹکڑے نظر آتے ہیں، اور جن جگہوں پر نہ جانے یا نہ چھونے کے بورڈ آویزاں ہیں وہاں خلاف ورزیاں سر عام کی جاتی ہے، کئی بورڈ لگے ہیں کہ شیشوں کو ہاتھ مت لگائے لیکن بچے، بوڑھے، مرد و زن سب کے سب شیشوں پر ہاتھ لگاکر اندر جانکتے ہیں اور نتیجتاََگندگی اور چمک میں کمی اور بد صورتی بڑھتی جاتی ہے۔ اور ایک قومی ورثہ خراب ہو تا جا رہا ہے۔ لو گوں کو شعور نہیں کہ وہ کھانا کھا کر ایک دو ٹکڑے چھوڑتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر روزانہ دس ہزار آدمی سیر کے لئے آ تے ہیں اور اگر پانچ ہزار ٹکڑے یا فرض کریں کہ ایک ہزار ٹکڑے بھی پھینک دے تو کیا حشر ہو گا، اور اگر ایک ہزار لوگ بھی مسجد کے شیشوں کو چھو لیں تو پھر شام تک ان شیشوں کا کیا حال ہو گا۔
ایک جگہ ایک بوڑھی خاتون کے ساتھ ایک جوان خاتون بھی بیٹھی تھیں اور کھانے میں مصروف تھیں اور ساتھ ساتھ کھانے کے ٹکڑے اور پھلوں کے چھلکے فرش پر گرا رہے تھے اگر ان لوگوں نے بعد میں اُٹھا بھی دیا تو بھی فرش پر داغ تو رہ ہی جائنگے اسی طرح ایک جوان جوڑہ بھی محفوظ شدہ کھانے کے ڈبے کھول کر کچھ کھارہے تھے اور ہڈیاں اور ٹکڑے حسب منشا فرش پر پھینک رہے تھے اور ایک جگہ بہت سی خواتین اور بچیان مالٹے چھیل چھیل کر چھلکے فرش پر رکھ رہی تھیں ٓ پ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم لوگ قومی ورثہ کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور چھوٹے بچوں کو دیواروں پر کھڑ ا کر کے فوٹو گرفی کرنا اور میناروں کی دیواروں پر بیٹھا کر تصویریں بنانا ایک معمول نظر آیا کیا یہ لوگ اپنے گھر میں بھی یہی حر کتیں کرتے ہیں اور ظاہر ہے ان کو صفائی اور گندگی کا شعور ہی شاید نہیں تو ان کے گھروں کا کیا حال ھوگا۔
مرغزار چڑیا گھر کا بھی برا حال ہے: فیصل مسجد سے فارغ ہو کر چڑیا گھر گئے وہاں بھی جانوروں کا برا حال نظر آیا اکلوتا ہاتھی کو کھانے کے لئے چند سر کنڈے نما ڈندے شاید گنے تھے ڈالے گئے تھے اس بے چارے نے کئی مرتبہ کھانے کی کوشش کیا ایک دو ڈندے اُٹھانے کی کشش کیا شاید مزہ نہیں آیا ، نکل کر خرامہ خرامہ دوسری طرف جہاں لوگوں اور خاص کر شور مچاتے بچوں کا ہجوم تھا چلا گیا اور ہاتھی بان کے حکم کی تعمیل میں بچوں کو سونڈ ہلا ہلا کر سلامی دینے لگا، ہرن، زیبرہ اور نیل گاے کو کھانے کے لئے مکئی کے سبز گھاس ڈالا گیا تھا اگر ان کو مشین سے چھوٹے چھوٹے کر کے کسی کھرلی میں ڈالا جائے تو ان کو کھانے میں بھی آسانی ھوگی اور جانوروں کے پاوں تلے آکر ضائع بھی نہیں ہوگا اسی طرح دوسرے جانوروں کا بھی یہی حال تھا اور جب ہم لوگ آبی جانوروں کے احاطے میں پہنچے تو وہ بے چارے سب کے سب دھوب میں بیٹھے جویں مارنے میں مصروف تھے چونکہ سوائے ایک تین چار فٹ کے کھڈے میں تھوڑہ سا پانی کے سارا جگہ خشک پڑا تھا کیا بطخ، کونج، بگلے، اور دوسری آبی جانوروں کا بغیر پانی کے گذار ممکن ہے یہ تو اس طرح ہے کہ مچھلی کو پانی سے باہر نکال کر کہا جائے کہ زندگی گذار لو۔ کیا سی ڈی ٓاے والے ٹنکوروں میں بھی پانی لا کر ان تالابوں میں اتنا پانی نہیں ڈال سکتے کہ یہ بے چارے اس میں تیر کر گذارا کر سکیں ۔ اور پھر اتنا رش تھا ناظریں کا کہ میں حیران تھا کہ یہ کمائی فی کس ۲۰روپے کے حساب سے کم از کم روزانہ لاکھوں کا آمدن کدھر جاتا ہے میں نے شکایات کی دفتر کی تلاش شرع کیا تو ایک جگہ ڈائریکٹر کے دفتر کا بورڈ نظر آیا اور وہاں جاکر مشکل سے ایک بندے سے ملاقات ہوئی جب میں شکایات کی رجسٹر یا مشوروں کی یا تاثرات کی رجسٹر کا تقاضہ کیا تو اس نے ایک کاغذ کا ٹکڑا اور ایک پنسل مہربانی کیا اور جب میں شکایت لکھا اور اسے تھماتے ہوے زبانی بھی شکایت کیا تو اس کی حالت دیدنی تھی جیسے میں نے اس کی چوری پگڑ لیا ھو۔ لیکن ساتھ ساتھ سیر کے لئے آنے والے مخلوق کی حالت بھی ان عہدے داروں سے کچھ بہتر نہ تھا یہاں پر بھی سیلانیوں نے جگہ جگہ گندگی پھیلانے کی بھر پور کوشش میں کیا تھا ، کاغذ کے ٹکڑے، چیونگم کے کاغذ، بسکٹ کے ڈبے، پھلوں کے چھلکے، مکئی کی چھلیاں کھاکر سوٹے، کھانے پینے کی اشیا، چپس کے ٹکڑے جانے کیا کیا جو بھی جس کے ہاتھ میں تھا کسی ڈسٹ بن میں ڈالنے کی زہمت نہیں کیا بل کہ پھینکتے جاتے تھے۔ پانی کی خالی بوتلیں ، جوس کے ڈبے، سیون اپ اور پیپسی کی خالی بوتلیں اور مونگ پھلی کے چھلکے جگہ جگہ بکھر گئے تھے، اور پھر بوڑھے جوان بچے سب ڈائنا سورز کے ڈانچوں پر چڑھ کر ان کے جبڑوں کے اندر بیٹھ کر فوٹو گرافی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ان کو اتنا عقل نہیں کہ اس طرح سلوک سے یہ مسالے کے ڈاھانچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونگے او ایک دو ٹوٹ بھی گئے تھے خاص کر ایک مگر مچھ کا جبڑہ ٹوٹا ہو تھا پھر بھی لوگ اپنے بچوں کو منع کر نے کی بجائے ان کو ترغیب دیتے تھے، میں سوچ رہا تھا کہ بحثیت قوم ہم اپنے آپ کو تو زبانی طور پر دنیا کا سب سے اونچا سمجھتے ہیں لیکن ہمارا شعور یہ ہے کہ ہم اپنا ایمان کو بھی صاف نہیں رکھ سکتے ہیں جیسا کہ ارشادہے اَطَہارت شطرلایمان یعنی صفائی ایمان کا حصہ ہے تو کیا یہی ہمارا ایمان ہے ہم جدھر جاتے ہیں گندگی پھیلائے بغیر نہیں آتے اور یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے اس حرکت سے کسی دوسرے کو دکھ تو نہیں پہنچتا یا کسی کو تکلیف تو نہیں ہوتا ۔ اللہ ہمارے قوم کو یہ توفیق دے کہ ہم اطہار ت شطر لایمان پر عمل کریں ، اور حکام کو ہدایت دے کہ ان قومی ورثا ء کی حفاظت کریں و سلام