کالمز

ممتا کی شفقت یا زہر آلود تعلیم و تربیت کی ترسیل

 سائرہ شاہ

یہ ایک سچی کہانی ہے۔ زارا، نو برس کی دبلی پتلی نازک سی بچی ہے ۔ چہرے کی رنگت پیلی ہے مگر نقوش نازک۔ ایک نظردیکھتے ہی فوراً احساس ہوجاتاہے کہ زارا بہت ذہین اور حسّاس بچی ہے۔ زارا بہت کم بولتی ہے مگراس کی آنکھوں سے ہمیشہ یہ تأثرجھلکتا ہے کہ جیسے وہ ہر بات کو بڑی گہرائی اور احساس سے سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ زاراکے ابّو لکڑی کا بڑاعمدہ کام کرتے ہیں۔ اس کی امی سیدھی سادی روایتی ماں ہیں۔

پچھلے کچھ دنوں سے زارا کو جاگتے ہوئے بھی ایک بھوت دکھائی دینے لگا ہے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے کہ اچانک ہاہا کار مچادیتی ہے:

’’ابّومجھے بچالو۔۔۔یہ مجھے مارڈالے گا۔۔۔‘‘

جب سے زارانے ڈرناشروع کیا، اس کے ابّونے کام پر جانا چھوڑ دیا ہے۔ وہ ہر وقت اس کے پاس ہی رہتے ہیں۔ اگر وہ پاس نہ ہوں تو زارا، خوف کی حالت میں گھر سے باہر چلے جانے کے لیے بھاگتی ہے۔ وہ اس حالت کے دوران اپنی ماں کے ہر گز قریب نہیں آتی اور نہ ہی اسے ہاتھ لگانے دیتی ہے۔ گھروالوں نے بہتیرے تعویز گنڈے اور دَم درُود کروائے مگر زارا کی صورت حال میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

زارا، پانچ چھ سال کی عمر سے ہی خاموش اور دبی دبی سی رہنے لگی تھی۔اس سے پہلے وہ بڑی شرارتی اور چلبلی تھی۔ اب وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ تو رہتی ہے، مگر کسی قدر کھچی کھچی سی۔کھیل کود اور بچوں کے دیگر مشغلوں میں حصہ نہیں لیتی ۔ بس گم سم سی بیٹھی رہتی ہے۔ سکول جانا ہو یا گھر پر رہنا۔ دونوں جگہوں سے اسے بے قراری ہوتی ہے۔ اس کی ہمیشہ خواہش رہتی ہے کہ وہ اپنی نانی کے پاس رہے۔ گھروالوں میں اسے صرف ابّو اور چھوٹی بہن اچھے لگتے ہیں۔

زارا کی زندگی میں تبدیلی کا سلسلہ، اس وقت شروع ہو ا، جب اس کی ماں نے اسے گھر گرہستی سکھانے کے لیے ’پریشان کرنا‘ شروع کردیاتھا۔ زارا کی ماں، اسے گھر داری کے تمام کام اور سلیقہ شعاری کے ہنر سکھانا چاہتی تھی۔ زارا کو بہت صبح سویرے اٹھادیاجاتا۔ وہ سکول جانے سے پہلے برتن دھوتی، آٹاگوندھتی، گھر کی صفائی کرتی اور پھر اپنے بھائیوں کے کپڑے استری کرتی۔ سکول سے آنے کے بعد سیپارہ پڑھنے، کپڑے دھونے، سلائی کڑھائی کا کام سیکھنے اور نہ جانے کتنے کاموں میں زارا کی ننھی سی جان پھنس گئی تھی۔ ان تمام کاموں کے علاوہ بڑے بھائیوں کی بدتمیزیاں اور خدمتیں اور پھر ذرا سی کوتاہی پر ماں کی مارپِیٹ اور پھٹکاریں۔ زارا کی ماں کو کبھی کبھار خیال تو ضرور آتا تھاکہ وہ ضرورت سے زیادہ زارا پر بوجھ ڈال رہی ہے۔ مگروہ دِل کو سمجھالیتی کہ آخر تو اس میں زاراکاہی فائدہ ہے۔ وہ اچھی سلیقہ شعارعورت بن جائے گی تو سسرال میں اس کی عزت ہوگی۔ آخر ایک دن تو اسے شادی کرکے اپنے گھر جانا ہی ہوگا۔ ماں باپ کا گھر، پرایا گھر ہی تو ہے۔ آخر اس کے ساتھ بھی تو یہی کچھ ہوا ۔ یہی رِیت ہے اور اسے ہر عورت کو نبھاناہوتاہے۔

زارا، اپنے محلے میں ہی ایک سکول میں پڑھتی ہے۔ پوراسکول چند کمروں پر مشتمل ہے۔ زارا جس کمرے میں بیٹھتی ہے ، وہ انتہائی چھوٹاہے اور اس میں چالیس کے قریب بچیاں بیٹھتی ہیں۔ کمرے میں ایک دروازے کے علاوہ کوئی کھڑکی یا روشندان نہیں۔ گرمی کے دنوں میں کمرے میں اس قدر حَبس ہوجاتاہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ بچیوں کو اپنا جسم ڈھانپ کررکھناچاہیے۔ زارا، شروع شروع میں ماں سے بحث کرتی کہ اس کے بھائی اپنے جسم کیوں نہیں ڈھانپتے۔ بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ زارا کو چادراوڑھنا ہی پڑی۔ البتہ اس میں ایک احساس ضرورپیدا ہو گیا کہ اس کا جسم مردوں کے جسم کے مقابلے میں ’شرمناک‘ ہے۔

ابتدائی جماعتوں میں زارا کو پڑھانے والی ٹیچربہت پیار کرنے والی تھی۔ وہ بچوں کو کہانیاں سناتی ۔ ان کے ساتھ طرح طرح کے کھیل کھیلتی۔ زارا کو یہ ٹیچر بہت اچھی لگتی تھی۔ وہ اکثر اس کے لیے ایک پھول لے جاتی ۔ ٹیچر، پھول لینے کے بعد زارا کو ڈھیر سارا پیار کرتی ، اس کا ماتھا چومتی۔ زارا، ٹیچر کی ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جاتی اور بس خوش ہوجاتی۔ یہ ٹیچردوسال پہلے سکول چھوڑ گئی۔ اس کی جگہ جو ٹیچر آئی، وہ نہایت غصّے والی اور چڑچڑی سی رہتی تھی۔ اس کا کام سارا دن بچیوں کو مارنااورپھٹکارنا ہی تھا۔ زارا کو اپنی پیاری ٹیچر کے چلے جانے کا دکھ تو تھا مگر کیا کرتی۔ بس چپ چاپ ، دبکی سی بیٹھی رہتی۔ اسے کبھی ماریا دھتکار کا سامنا تو نہ کرنا پڑاتھا، البتہ دوسری بچیوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا، اسے دیکھ کر سہمی سی بیٹھی رہتی۔

II

کچھ مہینے پہلے، زارا سوتے میں ڈر جاتی تھی ۔اسے خواب میں کالے کپڑوں والی بد شکل عورتیں نظر آتی تھیں۔ یہ عورتیں اس کے پیچھے بھاگتیں، اسے ڈراتیں اور پھر ان میں سے دو، اسے پکڑلیتیں۔ ایک عورت اپنا گھناؤناچہرہ ، زاراکے منہ کے قریب کرتی تو زاراسخت ڈر جاتی ۔ خوف اور بے بسی سے اس کے حلق سے عجیب سی بھاری آواز نکلنے لگتی___ اس کاسارابدن بے جان سا ہو جاتا___ مگر وہ ہاتھ پاؤں مارتی، ان عورتوں کے ہاتھوں سے نکل بھاگتی۔ وہ بھاگنا شروع کردیتی ۔ ایک گلی سے دوسری گلی اور پھر گرتی پڑتی ایک چوک میں جاپہنچتی۔ وہ تسلّی کرنے کے لیے کہ عورتیں اس کے پیچھے تو نہیں آرہی ہیں، مڑکردیکھتی ہے۔ مڑکر دیکھتی ہے تو وہی بھیانک چہرے والی عورت بدستور اس کے سامنے ہوتی ہے۔ اس عورت کا چہرہ، زارا کے چہرے کے بالکل قریب ہوتاہے اور اس کا دھڑ اور ٹانگیں گلی کے موڑ تک پھیلے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھ کر زاراکی چیخ نکل جاتی ہے۔ چیخ اگر چہ خواب میں نکلتی ہے مگر سچ مچ اس کے حلق سے بھی نکلتی ہے۔اس کے گھر والے اسے سنتے ہیں اور اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ اسے گود میں بٹھا لیتے ہیں۔ زارا بے سدھ اور پسینے میں بھیگی ہوتی ہے۔

چند ہفتوں سے زارا کوخواب میں بھیانک عورتیں تو نظر نہیں آتیں، البتہ اب ان کی جگہ ایک سرکٹابھوت دکھائی دینے لگاہے۔ بھوت نے عورتوں جیسے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبااور چمکدارچھراہوتاہے۔ زارا، ایک کمرے میں بندہے۔ کمرے سے باہر نکلنے کاکوئی راستہ نہیں ۔ بھوت زاراکے پیچھے بھاگتاہے۔ وہ اپنی جان بچانے کے لیے ایک کمرے میں چکر لگاتی ہے۔ آخرتھک کر گر پڑتی ہے۔ وہ گرتی ہے تو بھوت اس کے اوپر چھرے کا وارکرنے کی کوشش کرنے لگتاہے۔ زارا مسلسل، پچھلی طرف پھسلتی، کونے میں جالگتی ہے۔ کونے میں لگتے ہی، زارا، بھوت کے نرغے میں ، اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتی ہے۔ بھوت اس پر وار کرتاہے۔ وہ خوف سے تلملااٹھتی ہے۔ اس کی نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے حلق سے ایک بھیانک آواز نکل رہی ہوتی ہے، جیسے اسے ذبح کیاجارہاہو۔ زاراکے لیے ، ان بھیانک خوابوں کاتجربہ اس قدر لرزہ خیز ہے کہ اگر وہ دِن میں بھی کوئی ایسی چیز دیکھ لے، جس کی نسبت (Association)کسی طورخواب میں نظر آنے والی کسی چیز سے ہو، تو وہ خوف کی گرفت میں اترجاتی ہے، مثلاًکالا کپڑایا چمکدارشے۔

III

کسی بھی فردکے دِل ودماغ میں جس قسم کا احساس (Feeling) ہوگا، اسی قسم کا اظہار(Expression) اس کے رویّے میں جھلکے گا۔ یہ کیفیت مختصر وقت کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور اگر یہی احساس زیادہ دیر تک قائم رہے تو اس سے شخصیت میں مستقل رویّے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طورپر اگر آپ کے دل و دماغ پر پیار سے متعلق احساس کا غلبہ ہے توآپ کو ارد گرد کے لوگ اور اشیا بھی اچھی لگیں گی۔ لفظوں اور تصوّرات کا چناؤ اسی پیار کے احساس سے پھوٹے گا۔ اس احساس کو ظاہرکرنے کے لیے مثال کے طورپرآپ کہیں گے: ’’ مجھے اپنے ہر طرف ایک خوشبوسی محسوس ہورہی ہے۔‘‘ یا یہ کہ ’’___پیار کے احساس سے پہلے دنیا ایسی خوبصورت نہ تھی۰۰۰‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ احساس مستقل بنیادوں پر آپ کے شعور کا حصہ بن جائے تو پھر آپ اپنے ہر کام میں دوسروں کاخیالcare رکھنے کو ہی اپنا اصل مقصد مان لیں گے۔ ’دوسروں‘ میں صرف انسان ہی نہیں، جانور اور فطرت بھی شامل ہوگی۔

زارااب تک جس صورت حال میں پلی بڑھی، اس میں اس کے دل و دماغ میں جو غالب احساس پیدا ہوا اس کا اظہار کالے کپڑوں والی ، ہولناک چہروں والی دو عورتوں اور سرکٹے بھوت کی صورت میں ہوا ۔ دونوں عورتیں اور سرکٹا بھوت اس کی جان کے درپے ہیں۔ وہ ان دونوں کی موجودگی میں شدید عدم تحفظ اور خوف محسوس کرتی ہے۔ دونوں اس کی کمزور جان کے مقابل،طاقتورہیں۔ زارا ان عورتوں سے جان بچانے کی کوشش میں بھاگتی تو ضرور ہے مگر اس کی یہ کوشش بے فائدہ رہتی ہے۔ وہ مڑ کر دیکھتی ہے تو یہ اس کے سامنے ہوتی ہے۔ صرف اس کے سامنے ہی نہیں ہوتی ، اس عورت کا جسم غیر معمولی طورپر بہت لمباہوجاتاہے۔ زارااس غیر معمولی جسامت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتی ہے۔ یہی صورت حال سرکٹے بھوت کی ہے ۔ سرکٹابھوت، اسے ایسے کمرے میں مارنے کی کوشش کرتاہے، جس سے فرار کی کوئی راہ ہی ممکن نہیں ۔ یہ بے بسی کی انتہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے محرکات تھے، جن کی بدولت زارا کے دل ودماغ میں ایک ایسا احساس پیدا ہوگیا، جس کا اظہار دو ہولناک چہروں والی عورتوں اور پھر سرکٹے بھوت کی صورت میں ہوا۔۔۔؟

زارا کی ننھی سی ، معصوم دنیا کو غیر محفوظ بلکہ ہولناک حد تک آسیب زدہ کرنے میں دو عورتوں کا کردار بنیادی ہے۔ ایک اس کی ماں اور دوسری اس کی ٹیچر۔ ان دونوں نے خوف اور عدم سلامتی والا جو ماحول زارا کے اردگرد پیداکیا، اسی سے اس کے ذہن میں ، ایک احساس کی تشکیل ہوئی۔ اس احساس کا اظہار شروع میں دو ہولناک عورتوں کی صورتوں میں ہوا ۔ خوف اور عدم تحفظ کی اس صورت حال کے سامنے زارا بے قرار تو ضرورتھی مگر وہ اس سے بھاگنے کے لیے کوشش کر سکتی تھی۔ جب اس کے ذہن میں مکمل بے بسی اور اس کے سامنے ہارجانے کا احساس پیدا ہو گیا تو پھر سرکٹے بھوت کی صورت میں اس کااظہار ہونے لگا۔ پہلے، دو عورتوں کے بھوت کی صورت میں، زارا اپنے آپ پر ہونے والے ظلم اور ظلم کرنے والے کی نشاندہی کرسکتی تھی۔اس نشاندہی کے لیے عورتوں کے چہرے ہونا ضروری تھے۔ جب وہ اس صورت حال کے سامنے مکمل طورپربے بس ہوگئی اور اس میں ظلم کرنے والے کے خلاف تگ و دو کی صلاحیت ختم ہوگئی تو سرکٹے بھوت کی صورت میں اس کا اظہارہوا۔چونکہ دفاع کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی، اس لیے ظلم کرنے والے کی نشاندہی بے معنی ہوگئی۔ ایسے میں ظلم اور ظلم کرنے والی کی تصویر سرکے بغیر بنی۔ شناخت کے لیے چہرہ لازمی ہوتاہے۔ اگرشناخت کی ضرورت ہی نہ رہے تو صرف جسم ہی اس خوف اور عدم سلامتی کے اظہار کاذریعہ بن گیا، جس نے ہاتھ میں تلوار اٹھارکھی تھی اور وہ زارا کے پیچھے بھاگ رہاتھا۔

IV

زارا کی معصوم دنیا کو غیر محفوظ بلکہ ہولناک بنانے میں دو عورتوں کارویّہ بنیادی حیثیت رکھتاہے___ایک ماں اور دوسری اس کی موجودہ ٹیچر۔دونوں عورتیں ہیں اور ایک بچی کو اس سانچے (format)میں ڈھالنے کی کوشش کررہی ہیں جو روایت (tradition) میں عورت کے لیے طے ہے۔ ماں، زاراکو ایک تابعداربیوی اور ایک سگھڑ ماں بنانا چاہتی ہے جبکہ اس کی ٹیچر ، سکول یاکمرۂ جماعت میں پیدا کردہ جبر (suppression)اور خوف کے ماحول میں رہنے کی تربیت کررہی ہے۔ واضح رہے کہ کمرۂ جماعت میں پیدا کردہ جبر اور خوف کا ماحول سیکھنے سکھانے کے لیے کارآمد ہویا نہ ہو، بچوں کی جبر اور خوف سے پیدا ہونے والی گھٹن میں گزارہ کرنے کی تربیتbehaviour modification)) ضرورکردیتاہے۔

زارا میں کسی بھی بچے کی طرح، ایک ہزارصلاحیتیں اور خوبیاں موجود ہیں۔ اگر ان کی بخوبی نشوونما ہوجائے تو وہ کسی بھی جنسی تفریق(gender discrimination) سے قطع نظر ایک خود مختار(autonomous) فرد بن سکتی ہے۔ مگر اس میں موجود دیگر صلاحیتوں کو الگ کرکے صرف ان صلاحیتوں کی نشوونما کی کوشش کی جارہی ہے، جن کی بدولت وہ صرف ایک تابعدار بیوی اور سگھڑ ماں بن جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص یا ایک جانورکی دیگر تمام انسانی ؍حیوانی خصوصیات کو ردّ کرکے ، صرف اس کی جسمانی محنت کو ہی اس کی واحد انسانی ؍حیوانی خصوصیت مان لیاجائے۔ اسے محنت پر مجبور کرنے کے لیے سدھا لیاجائے۔ سدھانے کے نتیجے میں وہ اپنے فیصلوں میں نہ صرف ذہنی طورپر بلکہ جسمانی طورپر بھی آزاد اور خود مختار نہ رہے۔ ذہنی طورپر مفلوج بنانے کے لیے اسے اذیتیں دی جائیں اور اسے روایتی خیالات کی زنجیروں میں قید کر دیاجائے۔

زارا کا معاملہ ہو یا کھیتوں میں کام کرنے والے غلام کا قصّہ، دونوں صورتوں میں انسان کی فطری صلاحیتوں سے انکار کرکے صرف کارآمد خصوصیات کو ہی ان دونوں کی شناخت سمجھ لیا گیا۔ ایک زمیندار نے ایک غلام کو خریدا ۔ اس لیے خریدا کہ وہ اس کے کھیتوں پر کام کرے۔ وہ اپنے غلام کو اس حد تک زندہ رکھے گا کہ اسے غلام کی مزدوری ملتی رہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک ماں کیونکر ایک معصوم بچی کی زندگی کو سگھڑ ماں یا تابعدار بیوی بنانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے؟ بچی کا ذہنی سکون اور آسودگی سرے سے ختم ہوگئی ہے اور وہ ہولناک عدم سلامتی کا شکار بن گئی ہے۔ صدیوں سے چلتی، نسل در نسل منتقل ہونے والی روایت میں زارا کی ماں ایک کڑی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس نے سمجھ لیا ہے کہ وہ اس ’مقدّس روایت‘ کو اسی طرح آگے زاراتک منتقل کردے گی،جس طرح اس کی ماں نے اس روایت کو اس تک پہنچایاتھا۔ اسی طرح وہ اپنے ’ممتاکے فرض‘ سے ہم کنا رہو جائے گی۔ خواہ اس میں اس کے ہاتھوں کیسا ہی دردناک جرم سرزد ہوجائے۔

کیا ایسی روایت، جس میں انسانوں کی قربانی بغیر کسی تردّد کے، ایک فرض کے طورپر کردی جائے، محبتوں والی محفوظ دنیا اور رشتے بناسکتی ہے؟عام طورپر خود مختاری کی جب بات کی جائے تو اس سے مراد معاشی خود مختاری ہی ہوتاہے۔ حالانکہ اس سے اہم ذہنی خود مختاری ہے۔ ذہنی خود مختاری ہو تو کوئی بھی شخص بہت سی غیر ضروری معاشی بندشوں سے بھی آزاد ہوسکتاہے۔کوئی بھی شخص جب ذہنی طورپر خود مختارہو جائے تو کسی قسم کا خوف ، عدم سلامتی ، ترغیب(temptation)یا روایت کاجبراس پر اثر نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ خود مختارشخص ایک طرح سے خود سر اور بے لگام ہوجاتاہے۔ ذہنی خود مختاری فطری ماحول اور انسانی زندگی کے تسلسل (historical Process of human life) سے منسلک رہتی ہے۔ ان تمام عوامل (factors) کے ساتھ اس کا رشتہ ناقدانہ شعور(critical Consciousness)پر استوارہوتاہے۔ناقدانہ شعورکی بنیاد سوال کرنے اور مکالمہ کرنے پر ہے۔سوال اور مکالمے کاعمل ہر صورت میں انسانوں سے پیوست رہتاہے۔ اس عمل میں وہی بات ، حتمی عمل(praxis)کے لیے طے ہوگی جو سب انسانوں ، فطری ماحول اورانسانی زندگی کے تسلسل کے لیے بہترہوگی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button