کالمز

کیا وزیر اعلیٰ نے شہر کی خواتین کے دل جیت لئے ہیں؟

ہمارے جیسے معاشروں میں لکھنا اس لئے مشکل کام ہے کیونکہ کوئی غیر جانبدار لکھنے والا اگر کسی عوامی نوعیت کے ایشو پر لکھتا ہے اور زمہ داروں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو زمہ دار ادارے یا افراد اس ایشو کا حل نکالنے کی بجائے لکھنے والے کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اور اس کی آواز کو دبانے یا اس کو معاشرے میں برا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ بعض افراد ایسی ہر تحریر پر واہ واہ کرتے ہیں جو ان کے مخالف فرد یا گروپ پر تنقید کرتی ہو۔ لکھنے والے کی ایسی تعریف دراصل حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں کی جاتی ہے ۔ اسی طرح لکھنے والا اگر کسی کی تعریف میں لکھے تو اس فرد یا ادارہ کے حامی لوگ واہ واہ کریں گے اور مخالف طبقہ گالم گلوچ پر اتر آئے گا۔ یہ سارا کام کسی تحقیق ، سمجھ بوجھ یا دانشمندی کے تحت نہیں ہوتا بلکہ اپنے اپنے سیاسی نظریات، عقائد،تعلقات ، رشتداریاں اور مفادات کے تحفظ کے لئے ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرہ کی ایک بڑی آبادی ناخواندہ یا ان پڑھ افراد پر مشتمل ہے وہ اچھائی یا برائی کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھتے اور جو نام نہاد پڑھے لکھے ہیں وہ بھی سماجی امور کو سائنسی انداز میں پرکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں سائنسی انداز میں دلیل کی بنیاد پر بات کرنے اور بات سمجھنے کی تربیت تعلیمی اداروں میں بھی نہیں دی جاتی ہے۔ ہماراسیاست ، مذہب اور دیگر اہم امور سے عقلی تعلق کم جذباتی تعلق زیادہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے نہ ہم دلیل سنتے ہیں اور نہ دلیل سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لکھنے ولا ہمیشہ ان کی قصیدہ گوئی کرے اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اس کی کوئی بات نہ سنی جائے بلکہ ان پر لعنت و ملامت کیا جائے۔

جبکہ ایک غیر جانبدار لکھنے والے کی مجبوری یہ ہوتی ہے وہ کسی بھی تصویر کے دونوں رخ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے وہ کسی کی تعریف یاتنقید جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی بات پیش کرنے کے لئے دلیل کا سہارا لیتا ہے۔

گو کہ ہر انسان کسی نہ کسی رشتہ، نظریہ،، عقیدہ، علاقہ ،زبان اور رنگ ونسل سے جڑا ہوتا ہے مگر قلم کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس کو ہاتھ میں لیتے وقت لکھنے والا شخص اپنے جذباتی تعلق اور رشتے کو دور رکھے اور صرف اور صرف دلیل کو اپنا سہارا بنا لے۔ ایسے میں صفحہ قرطاس پر اترنے والا کوئی لفظ کسی کی تعریف میں نکلتا ہے یا تنقید میں، لکھنے والا کو اس سے غرض نہیں ہوتا۔ کسی کو وہ الفاظ برے لگتے ہیں یا اچھے اس سے بھی لکھنے والا کو کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ اس کو صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ لکھتے وقت کہیں و ہ بلا جواز جانبداری کا شکار نہ ہو جائے اور وہ لوگوں کو غلط پٹی پڑھانے کا با عث نہ بنے۔یہی دراصل کسی تحریر کا اصل حسن ہوتا ہے۔

مذکورہ تمہید کا مقصد یہ تھاکہ ہم زندگی کے مختلف امور کے حوالے سے موجودہ حکومت کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ایسے میں کچھ حکومتی کام ایسے ہیں جن کی تعریف نہ کی جائے تو کفران نعمت ہوگی۔ راقم بحثیت صحافی گذشتہ پندرہ بیس سالوں سے اپنی تحریروں میں گلگت شہر کی حالت زارکا رونا روتا رہا ہے ۔ آج سے چند مہنے قبل تک ہمیں شہر گلگت میں جگہ جگہ پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیر اور گندگی پر بہت افسوس ہوتا تھا۔ یہ شہر لاوارث سا لگتا تھا۔ اس شہر کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی تھیں۔ اس شہر کی تزئین و آرائش تو دور کی بات اس کے اہم پبلک مقامات پر گندگی کے ڈھیر لگے ہوتے تھے جو ہر گزرنے والے کے لئے ذہنی کوفت کا باعث ہوتے تھے۔ اس شہر کی ماؤں اور بہنوں کو ہر صبح اٹھ کر یہ فکر لگی رہتی تھی کہ وہ اپنے گھر کا کچرا کہاں پھنکیں گی ؟

مگر آج صورتحال بہتر ہے ۔ صبح صبح اٹھتے ہی کچرا اٹھانے والی گاڑی کے ہارن کی آواز سن کر گھر وں کی خواتین کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں وہ اپنا کچرا ان گاڈیوں کے حوالے کر کے اپنے گھروں کے دروازوں کے کسی سوراخ سے اس کچرے کو گاڈ ی میں لوڈ ہوکر جاتا ہو ا دیکھ کر سکھ کا سانس لیتی ہیں ۔اس دوران ،ان کے منہ سے ان گاڈیوں، ان کے ڈرائیوروں اور وزیر اعلیٰ حا فظ حفیظ الراحمن کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔ راقم نے روڑ پر چلتی خواتین اور بچوں کو کچرا ٹھانے والی ان گاڑیوں کوستائش کی نظر وں سے دیکھتے ہوئے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے ۔

گھروں ، دفاتر ، محلوں اور نجی محفلوں میں روز خواتین وزیر اعلیٰ کے شہر کی صفائی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کی تعریف کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو سیاست میں دلچسپی نہیں ہوتی اس لئے ان کی تعریف اور تنقید میں بھی سیاسی وابستگی کا عنصر نہیں ہوتا ہے۔وہ صرف اور صرف کارکردگی پر تعریف یا تنقید کرتی ہیں۔

خواتین کی یہ تعریف بے جا نہیں لگتی کیونکہ ہمیں شہر کی بیشتر سڑکیں اب ٹوٹی پھوٹی نظر نہیں آتی ہیں، ہمیں شہر میں کہیں پر کچرے کے ڈھیر نظر نہیں آتے ہیں، ہمیں التواء کے شکارمنصوبے مکمل ہوتے نظر آتے ہیں۔ریور روڈ سے گزرتے ہوئے ٹائر کے بنے ہوئے گملے دیواروں پر لٹکتے ہوئے ہر ایک کو بھلے لگتے ہیں۔ ڈومیال لنک روڑ اب وہ نہیں رہا۔ ائیر پورٹ کی دیواروں پر کی گئی پنٹنگ نہ صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کو بلکہ شہر کے باسیوں کو بھی اچھی لگتی ہیں۔ پونیال روڑ کی حالت بہتر ہوگئی ہے۔ کنوداس اب مکینوں کے رہنے کا قابل بنتاجارہا ہے، وہاں کا کچرا اور سڑکیں بہتر ہو رہی ہیں۔ جوٹیال کی سڑکیں پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ این ایل آئی مارکیٹ کے ساتھ بنی ہوئی پارکنگ اور ریڑھیوں کے لئے تیار کی گئی جگہ شہر کی خوبصورتی کی نشانی ہیں۔ گھڑی باغ اب شہر کو دلکش بنانے کا باعث بن رہا ہے۔ لوگوں میں شعور آنے کی وجہ سے اب بیشتر ہوٹلوں اور دکانوں کے باہر بھی ڈسٹ بن نظر آتے ہیں۔ سولڈویسٹ منجمنٹ کمپنی کو گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع میں بھی قائم کیا گیا ہے امید ہے وہاں بھی صفائی کی صورتحال بہتر ہوگی۔ تاکہ ہمارے علاقے کی طرف ہر سال آنے والے لاکھوں سیاح یہاں آکر فرحت محسوس کر سکیں۔

ان تمام کے باوجود حکومت یہ نہ سمجھے کہ شہر کے تمام مسائل حل ہوئے ہیں۔ بلکہ کئی محلوں میں پانی جمع ہونے کی شکایت بدستور برقرار ہے جس میں رمضان ہوٹل کے عقب کا محلہ سر فہرست ہے ۔ اسی طرح کئی محلوں کو پانی دستیاب نہیں ہے ۔ سیوریج کا نظام ابھی ٹھیک کرنا باقی ہے۔ جبکہ شہر کے موجودہ صفائی اور تزئین و آرائش کے کام کو بھی مزید بہتر کیا سکتا ہے۔

ہم ہر روز کئی معاملا ت میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر جو کام اب تک ہوئے ہیں ان کی تعریف ہم کریں یا نہ کریں شہر کی خواتین ضرور کرتی ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے صفائی کے حوالے سے اپنے ایک اقدام سے شہر کی خواتین کے دل جیت لیے ہیں۔ جس کے لئے وزیر اعلیٰ ، محکمہ بلدیات اور سولڈ ویسٹ منجمنٹ کمپنی مبارکباد کے مستحق ہیں۔امید ہے وزیر اعلیٰ دیگر اہم مسائل کے حل کی طرف بھی تو جہ دیں گے تاکہ وہ مردوں کے بھی دل جیتنے کے قابل ہو سکیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button