چترال

شیرشال کریم آبادکے58 گھرانوں کو کسی محفوظ جگہ پر منتقل کیا جائے، متاثرین کاپریس کانفرنس

چترال (نذیرحسین شاہ نذیر)سانحہ شیرشال کے متاثریں تاج محمد،ظفرمحمد، نادرخان،حسین خان،دیدارعلی شاہ اورادینہ شاہ نے چترال پریس کلب پرایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاہے کہ وفاقی ، صوبائی اور ضلعی حکومت سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ جن لوگوں کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں ان کے گھروں کی تعمیر کے لیے فوری بندوبست کیے جائیں کیوں کہ یہ لوگ آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ائندہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مستقل اور ٹھوس بنیادوں پراقدامات کییجائیں۔ کیونکہ گاؤں مکمل طور پر غیر محفوظ ہے۔ گاؤں کا ادھا حصہ لینڈ سلانڈنگ کی وجہ سے پہلے سے متاثر ہے۔ اور باقی حصہ برفانی تودوں کی زد میں ہے۔ گاؤں تک کا جو روڈ ہے وہ بھی علاقے کے خطرناک تریں راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے علاقے میں زندگی بسر کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسلئے ہم اپیل کرتے ہیں کہ 58 گھرانوں کی جانی تحفظ کے لئے لوگوں کو کسی محفوظ جگہ میں منتقل کیا جائے۔ ہم یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ گورنمنٹ خود متاثرہ علاقے کا معائنہ کرے۔ علاقے میں لوگوں کی جانی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہاکہ

5 فروری کی رات تقریبا ڈیڑھ بجے شیرشال کریم آباد میں برفانی تودہ گرنے کاایک المناک حادثہ پیش آیا۔ جس میں 9 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اور چار افراد زخمی ہوئے۔ شدید برفباری کی وجہ سیگاؤں کا دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع ہونے کے باؤجود بھی گاؤں کے والنٹئرز جن میں فوکس کے تربیت یافتہ بندے بھی شامل تھے، اپنی مد د آپ کے تحت راتوں رات لاشوں اور زخمیوں کو برفانی تودوں کے نیچے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے۔زخمیوں میں ایک کی حالت انتہائی تشویشناک ہے اور حیات آباد میڈیکل کمپلیس میں زیر علاج ہے۔ اس المناک حادثے میں آٹھ گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ چھ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اور درجنوں مویشی برفانی تودوں کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ہیں۔ واقعے کے بعد سب سے پہلے تھانہ شغور کے ایس 150ایچ 150او اپنی ٹیم کے ہمراہ پہنچ گئے۔ واقعے کے تیسرے دن بعد ڈسٹرکٹ اڈمنسٹریشن کی جانب سے تحصیلدار گل فراز شاہ اورنظام الدیں نے لواحقین میں تیں تیں لاکھ روپے کا چیک تقسیم کیا۔ اور ڈاکٹر سمیع اللہ کیجانب سے زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دی گئی۔ واقعے کے چھ دن بعد گاؤں کے والنٹئرز نے دو شدید زخمیوں کو سٹریچر کے ذریعے آٹھ کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے ایمبولنس تک پہنچائے جہاں سے انھیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چترال منتقل کیے گئے۔ علاقے کی دشواری اور راستہ انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان آرمی کی جانب سے 9 دن بعد متاثریں میں امدادی اشیاء گاؤں میں لاکر تقسیم کی گئی۔ پاکستان ہلال احمر نے مقامی ایل۔ایس 150او کاڈو کے ساتھ ملکر متاثرین میں کاڈو افس میں امدادی سامان تقسیم کی۔ مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تقریباًچھ کلومیٹر تک راستے سے برف تو ہٹالیے لیکن درمیان میں ایک جگہ ہیوی اوالنچ کی وجہ سے راستہ تا حال بند ہے اور متاثریں کے امدادی سامان اب بھی کاڈو آفس میں پڑے ہیں۔ہم سب سے پہلے اپنی طرف سے اور مقامی عمائدیں کی طرف سے ڈپٹی کمشنر چترال کا، پاکستاں آرمی کے کور کمانڈر ، چترال سکاؤٹ کے کمانڈنٹ ، سپرٹنڈنٹ اف پولیس، ایم این اے شہزادہ افتخار ،ایم پی اے سلیم خاں، ناظم حاجی مغفرت شاہ ، جماعت علماء اسلام چترال کے سربراہ قاری عبد الرحمن ، پاکستان ہلال احمر کا، فوکس اور اے 150کے۔آر 150ایس پی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جہنوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ اپنی تعاون کو جاری رکھا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button