کالمز

یا آفتاب ہو۔۔۔

میں اپنی نیند سے محروم ہوں ۔۔مسلسل برف باری ہے ۔۔برف کی تہہ کی تہہ جمتی جارہی ہے ۔۔ایک فٹ ،دو فٹ،تین فٹ۔۔چار فٹ۔۔۔چار فٹ تو میرا قد بھی ہے۔۔قد آدم لمبی برف کی تہہ۔۔۔اپنی کچی چھت سے برف ہٹا رہا ہوں ۔۔آسمان برف گرانا بند کرتا ہے ۔۔تو میں اسے وقفہ کہتا ہوں ۔۔اور کہتا ہوں یا اللہ پھر سے برف باری شروع نہ ہو جائے ۔۔میری بیوی بھی بیلچہ لئے ساتھ کھڑی ہے ۔۔برف ہٹانے میں میری مدد کر رہی ہے ۔۔دو چار بیلچے میں برف ہٹاتا ہوں ۔۔پھر کمر پہ ہاتھ رکھ کے کھڑا ہوتا ہوں ۔۔میری بیوی کو مجھ پہ ترس آتی ہے ۔۔ایک بیلچہ بھر برف نیچے گراتی ہے ۔۔پھر میرے پہلو میں کھڑی ہوتی ہے ۔۔افسردہ ہے ۔۔درماندہ ہے ۔۔افتادہ ہے ۔۔برف باری پھر سے شروع ہوتی ہے ۔۔گھر میں سامان خوردو نوش ختم ہونے کو ہیں ۔زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔۔۔مجھ جیسے سب اپنی اپنی چھتوں سے برف ہٹاتے ہٹاتے وقفے وقفے سے آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔۔روڈ بند ہیں ۔۔یہ ہم جیسوں کی حالت زار ہے ۔۔آپ کا کیا ہے ۔۔۔

آپ تو دیر سے جاگے ہے ۔۔اخبار تیرے کمرے میں آگیا ہے ۔۔ناشتے سے پہلے تو اخبار کی شہ سرخیاں دیکھنے کی عادی ہے ۔۔ٹیلی وژن آن کیا ہوا ہے ۔۔وہاں ہلکے باریک کپڑوں میں ملبوس ماہ پیکر جس کے بالوں کا اپنا سٹائل ہے ۔۔اس کو پتہ نہیں چلتا کہ باہر سردی نام کی کوئی چیز ہے ۔۔لہک لہک کر ملک کے مختلف علاقوں میں طوفانی برف باری کی اطلاع دیتی ہے ۔۔برفانی تودوں کے گرنے اور ہلاکتوں کی خبر دیتی ہے ۔۔در حقیقت یہ ملک تمہارا ہے یہ دھرتی تمہاری ہے ۔۔یہاں کے پسماندہ علاقے بھی تمہارے ہیں ۔۔برف ہٹانے والی میری خستہ حال بیوی تمہاری دینی بہن ہے ۔۔تم پر اس کا حق ہے ۔۔تم اس کے لئے خدا کے سامنے جواب دہ ہو ۔۔یہ ملک خدا کی دین ہے ۔۔اور تمہیں اقتدار کی آزمائش میں ڈالا گیا ہے ۔۔تم میں ایسی معمولی صلاحیت بھی نہیں کہ کچی چھت سے ہلکی سی برف بھی ہٹا سکو۔۔اگر تمہارے سینے میں دل ہے تو کم از کم اس آرام کرسی[صوفے]پہ بیٹھے بیٹھے تڑپ اٹھے ۔۔خدا کے حضور گڑ گڑائے کہدے ۔۔’’یا اللہ میرے اہل وطن کو ہر آزمائش اور ہرمصیبت سے بچا ۔۔رب کریم ہے ۔۔عادل حکمرانوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔۔پھر اگر تیرے ناشتے کی میز سجے تو تو ان میاں بیوی کو یاد کرو۔۔ تو سوچو کہ انھوں نے ناشتہ کیا کہ نہیں ۔۔تو اپنی پلیٹ میں موجود ٹوسٹ اورانڈوں سے ہاتھ کھینچے ۔تمہارے سینے میں ایک حکمران کا دل اپنی جگہ ایک انسان کا دل بھی تو ہے ۔۔وہ لمحہ بھر دھڑکے ۔۔۔چھت سے برف ہٹانے والی میاں بیوی اپنے آپ کو محروم تصور نہ کریں ۔وہ سوچیں کہ ان کا بھی کوئی حکمران ہے ۔۔یہ ملک ان کا بھی ہے اس ملک کی دولت ان کی بھی ہے ۔۔ان تک مدد پہنچے گی ۔۔سڑکوں سے برف ہٹائی جائے گی ۔۔ایسا ہوتا بھی ہے ۔مگر وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ۔۔

جولائی ۲۰۱۶ء کی بات ہے۔ اچانک تورکھو کے ایک عوامی اجتماع میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ایم این اے سی اینڈ ڈبلیو کے اعلی ٰ افیسروں کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ تورکھو روڈ کا افتتاح تھا ۔۔اعلان ہوا کہ ۵ پلوں میں سے ۳ پل دسمبر تک بن جائینگے۔۔روڈ بونی سے ورکھوپ تک پہنچ جائے گا ۔۔میں نے بھی لمحہ بھر خواب دیکھا ۔۔خواب اس لئے کہ اس قوم کو خوابوں کو حقیقت بنانے میں ہمیشہ دیر لگتی ہے ۔۔یہ قوم جفاکش نہیں ہے ۔۔اس کا انجینئر پہاڑ نہیں کاٹتا ۔۔اس کا آفیسر اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے بے چین نہیں ہوتا ۔۔اسکے اشرافیہ کے ناشتے کی میز ہے ۔۔وہ گلیشر پر سے کبھی سفر نہیں کرتے ۔۔وہ چھتوں پر سے برف نہیں ہٹاتے ۔۔خواب خواب ہی رہا ۔۔ایک فٹ کا بھی کام نہیں ہوا۔۔

میری بیوی نیم تعلیم یافتہ ہے ۔۔بچوں میں سے کسی منچلے نے اس کو ایک شعر یاد کرایا ہے ۔۔وہ میرے پہلو میں کھڑی وہ شعر حسرت سے سناتی ہے ۔۔

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ

تو کسی روز میرے گھر میں اُتر شام کے بعد

میں ہنس کر کہتا ہوں ۔۔کیا ہوا اتنا رومینٹک ۔۔۔وہ کہتی ہے کہ میں حکمرانوں سے مخاطب ہوں ۔۔صدر سورج ہے ۔۔وزیر اعظم سورج ہے ۔۔وزیراعلیٰ سورج ہے ۔۔پھر آگے سورجوں کی لمبی قطار ہے ۔۔جو روشنیوں کے تعاقب میں سرگردان ہیں ۔۔ان کو اندھیکاریوں کا تجربہ نہیں ۔۔وہ تیرے گھر میں ۔۔۔پھر شام کے بعد۔۔۔میں مسکرایا ہی تھا کہ سورج کا گولا گھنگور گھٹاؤں سے باہر نکل آیا ۔۔ہم دونوں مسکرا اُٹھے ۔۔اور روشنی کو خوش آمدید کہا ۔۔ہم دونوں برف ہٹانے کے لئے جھکے۔۔میں جھکا ہی تھا کہ کمر میں موچ آگئی ۔۔میں نے کمر پر ہاتھ رکھ کر سیدھا ہو گیا ۔۔اورسورج کے گولے کی طرف منہ کرکے کہا ۔۔تو ہے سورج ۔۔۔تو ہے سورج ۔۔۔میری بیوی برف ہٹاتے ہٹاتے کہتی رہی ۔۔۔تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ ۔۔۔تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ ۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button