چترال

چترال : مسلسل احتجاج کے بعد خواتین ممبران کےمطالبات کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل

چترال (بشیر حسین آزاد) تقریبا دو مہینے سے مسلسل احتجاج کے بعد بالاخر کنوئنیر ضلع کونسل چترال مولانا عبدالشکور نے خواتین ممبران کا مسئلہ حل کرنے کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جو خواتین کی مطالبات کا جائزہ لے گا ۔ اور حتمی فیصلہ ضلع کونسل میں پیش کرے گا ۔ منگل کے روز ضلع کونسل کا اجلاس کنونئیر ضلع کونسل کی زیر صدارت دوبارہ شروع ہوا ۔ تو خاتون ممبر آسیہ انصار ، حصول بیگم ، شکیلہ بی بی ، نگہت پروین اور صفت گل نے پھر احتجاج کیا ۔ اور کہا کہ و ہ ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں ضلع کونسل میں آئی ہیں ۔ اور کونسل میں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا اُن کا حق ہے ۔ فنڈ کی منصفانہ تقسیم تک اُن کا احتجاج جاری رہے گا ۔ اس پر ممبر ڈسٹرکٹ کونسل لاسپور ذوالفی ہنر شاہ نے خطاب کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی ۔ کہ خواتین کا مسلسل احتجاج چترال جیسے ثقافتی اقدار کی حامل ضلع کے ساتھ اچھا نہیں لگتا ۔ اس لئے ان کے مسئلے کا جائزہ لینے اور حل نکالنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ ان کے تجویز کے ساتھ مولانا جمشید احمد جماعت اسلامی ، مولانا عبد الرحمن ، غلام مصطفی اور دیگر ممبران نے اتفاق کیا ۔ جس پر کنوئنیر نے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ۔ ضلع ناظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر شدید برہمی کا اظہار کیا ۔ کہ ہدایت کے باوجود ڈیوال اداروں کے آفیسران اور نمایندگان ضلع کونسل اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے ، حالانکہ عوامی مسائل کے حوالوں سے اجلاس میں جو بحث کی جاتی اس موقع پر ان کی حاضری ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ضلع کونسل ڈیوال ڈیپارٹمنٹ کے آفیسران کی حاضری چترال میں روزانہ کی بنیاد پر لینے کیلئے طریقہ کار وضع کرے گا ۔ کہ ان اداروں کی کارکردگی جانچنے میں آسانی ہو اور اس کے مطابق لائحہ عمل طے کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ غیر حاضر اآفیسران کی تنخواہ سے کٹوتی کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے ۔ اجلاس میں بحث میں حصہ لینے والے تمام ممبران محمد حسین ، انعام الحق ، مولانا جاوید حسین ، غلام مصطفی ، مولانا عبد الرحمن ، رحمت ولی ، مولانا جمشید احمد ، شیر عزیز بیگ نے وزیر اعظم کے اعلان شدہ ہسپتال ، یونیورسٹی کی تعمیر اور بیس کروڑ روپے فنڈ کی فراہمی یقینی بنانے پر زور دیا اور چترال میں حالیہ شدید برفباری سے نقصان شدہ سڑکوں کی ممبران کی طرف سے بحالی کے بعد عدم آدائیگی کی وجہ سے درپیش مسائل سے آگاہ کیا ۔ اجلاس میں اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا گیا ۔ کہ صوبائی حکومت کی طرف سے کرپشن کے خاتمے کے باوجود جو طریقہ کار ٹھیکہ داری نظام کے تحت بلدیاتی اداروں میں چل رہا ہے ۔وہ حکومتی خزانہ ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ضلع ناظم نے اس حوالے سے تمام ممبران کو اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر نظر رکھنے کی ہدایت کی ۔ اور کہا ۔ کہ کسی بھی ٹھیکہ دار کو اُس وقت تک آدائیگی نہیں کی جائے گی ۔ جب تک مقامی ممبر کو کام سے متعلق تسلی نہ ہو اور تکمیلی سرٹفیکیٹ ٹھیکہ دار کو نہ دے ۔ انہوں نے کہا ۔ کوئی بھی ٹھیکہ دار کام لینے کے بعد اُس کو خود کرنے کا پابند ہو گا ۔ سپلٹ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ضلعی حکومت کی کوششوں سے صوبائی حکومت نے روڈ قلیوں کی دوبارہ تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے ۔ ضلع ناظم نے مولانا جمشید احمد کی طرف سے پیش کئے گئے ایک تجویز پر عمل کرتے ہوئے کہا ۔ کہ خواتین کو باپردہ طریقے سے شاپنگ کرنے کیلئے چترال شہر کے اندر ایسی مارکیٹ تیار کی جائے گی ۔ جس میں خواتین ہی دکاندار ہوں گی اور خواتین ہی خریدار ہوں گی ۔ نیز اس مارکیٹ میں ریسٹوران اور واش کی سہولیات جدید تقاضوں کے مطابق تیار کئے جائیں گے ۔ اور چترال کی خواتین عزت کے ساتھ اپنی ضرورت کی اشیاء بلا جھجک خرید سکیں گی ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button