کالمز

نئے تعلیمی سال کا آغاز، گلگت بلتستان کے لاکھوں طلباء کتابوں سے محروم

محمد عرفان

دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ سمیت دنیا کے عظیم گلیشیرز میں گھیرے گلگت بلتستان کا شمارنہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کے سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ سردیوں میں نقطہ انجماد منفی ۳۰ ڈگری تک گر جاتا ہے اور متعدد بالائی علاقے کئی ماہ تک دنیا سے منقطہ ہو جاتے ہیں۔ سخت سردی کے پیش نظر تمام تعلیمی ادارے تین ماہ کے لئے بند کیا جاتا ہے اوردسمبر سے فروری تک تین ماہ کی چھوٹیوں کے بعد یکم مارچ سے باقاعدہ نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے اور یوں تمام تعلیمی ادارے یکم مارچ سے ہی باقاعدہ طور پر فعال ہو جاتے ہیں۔ سالِ رواں بھی حسب روایت تعلیمی ادارے تو کھل چکے ہیں مگر سرکاری سکولوں کے تمام طلباء کتابوں سے محروم ہیں۔ مگر اس محرومی کے پیچھے نہ موسمی حالات کو دوش ٹہرایا جا سکتا ہے نہ ہی بچے اور نہ ہی والدین بلکہ گلگت بلتستان گورنمنٹ کی لاپرواہی کے باعث بچوں کی تعلیم کا ضیاء ہو رہا ہے۔

گلگت بلتستان گورنمنٹ نے اس بار فیصلہ کیا تھا کہ تمام سرکاری اداروں میں زیر تعلیم طلباء کو حکومت کی جانب سے مفت درسی کتابیں مہیا کر دی جائیں گی۔ مگر نئے سال کے دوسرے ہفتے کے آغاز پر بھی یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا اور صوبے بھر کے لاکھوں طلباء بغیر درسی کتابوں کے سکولوں میں  بے کار وقت گزارنے پر مجبورہیں۔

واضح رہے کی گلگت بلتستان کا صوبائی سطح پر کوئی درسی بورڈ نہیں اور صوبے بھر میں پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اور معلومات کے مطابق لاہور سے صوبے بھر کے لئے درسی کتابیں روانہ کر دی گئی ہیں جن کا صوبے میں پہنچنا اور پھر دور دراز علاقوں میں تقسیم ہونا باقی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ ان کتابوں کے دور دراز علاقوں میں پہنچتے پہنچتے یہ ماہ یوں ہی گُزر جائے گی اور بچوں کو ایک ماہ تک کتابوں کے بغیر ہی کلاسوں میں بٹھایا جائے گا۔ کتابوں کی بروقت ترسیل نہ ہونے سے طلبا کو تعلیمی سال کے آغاز پر مسائل کا سامنا ہے بلکہ بیشتر طلباء تین ماہ کی طویل چھٹیوں کے دوران بھی سرکاری کتابوں کی آس میں کتابوں کا مطالعہ نہ کر سکے۔

  صوبے بھر میں سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف حکومت کی عدم توجہ کے باعث والدین اور خود بچوں کا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف رجہان میں بے پناہ اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ گاوں گاوں اور گلگت اور سکردو جیسے صوبے کے بڑے شہروں میں سینکڑوں کی تعداد میں موجود پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ والدین سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث نجی اداروں کو ترجیح دیتے ہیں اور یوں حکومت کی طرف سےتعلیمی مسائل پر توجہ نہ دینے کے باعث والدین نجی اداروں کو منہ مانگی فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نہ صرف مزید تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لائے بلکہ پہلے سے موجود اداروں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات عمل میں لائیں ۔ صوبائی سطح پر تعلیمی بورڈ کے قیام سمیت اساتذہ کی بروقت فراہمی اور پرائیویٹ اداروں کی سرپرستی ضروری ہے۔

ایک طرف تو وفاقی اور صوبائی حکومت مفت تعلیم کی فراہمی کے بلند و بانگ دعوے کرتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقوں میں طلبا درسی کتابوں تک سے محروم نظر آتے ہیں۔  حکومت وقت کی جانب سے اس طرز کی اس طرز کی غیر سنجیدہ عمل صوبے بھر میں نا خواندگی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button