کالمز

دیامر کا سیاسی منظر نامہ

دیامر گلگت بلتستان میں آ بادی وسائل اور جغرافیائی اعتبار سے تمام اضلاع میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ قبل از پاکستان یہ علاقہ انتہائی اہم تصورکیا جاتا تھا اور اسی اہمیت کی بنیاد پر یہاں کے باسیوں کو ایک اہمیت دی جاتی تھی۔

آج کا ضلع دیامر ما ضی میں تین حصوں میں تقسیم تھا، یعنی ریاست داریل، ریاست ، تانگیر ،،اور چلاس ایجنسی جو مختلف ادوار میں مختلف سیاسی حیثیتوں سے اپنے جدا گانہ وجود برقرار رکھے ہوئے تھے۔ آج کا دیامرانتہائی شمال میں تانگیر کے آخری حدود سے شروع ہوکر سگہ سل دار تک لگ بھگ دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ جبکہ جنوب میں للنگ دار سے شروع ہو کر بونجی کے حدود تک پھیلا ہوا ہے۔ مذکورہ حدود اربعہ میں مختلف قومیں آبا د ہیں جن کے مفادات معاملات اور سیاسی وابستگیاں بھی مختلف ہیں لیکن مجموعی طور پر حیران کن حد تک نفسیاتی اور زہنی مما ثلت پائی جاتی ہے۔ سیا ست کو عام مشغلہ کی حد تک سنجیدہ لیا جاتا ہے جتنا اہم سیاست ہے اتنی اہمیت اسے نہیں دی جاتی۔

یہاں حقیقی معنوں میں اگر دیکھا جائے تو کسی بھی سیاسی جماعت کو فوقیت حا صل نہیں ہے بلکہ ووٹرز شخصیات کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رائے حق دہی میں ستر فیصد عوام کو یہاں تک معلوم نہیں ہوتا ہے کہ جس کو ووٹ دینے جارہے ہیں اس کا تعلق کس جماعت سے ہے۔ دیامر میں پچاس فیصد ووٹ امیدوار کی شخصیت، اس کے کردار سیاسی بیک گراونڈ اور خاندانی پس منظر کی بنیادپر ملتا ہے۔ تیس فیصد ووٹ سیاسی نظریاتی وابستگی کے بنیاد پر ملتا ہے دس فیصد ووٹ کا دارومدار نسل اور قومیت پر ہوتا ہے، اور بقیہ دس فیصد ذاتی مفادات یا کسی حادثاتی تبدیلی کی مرہون منت سمجھے جاتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں بھی یہی صورتحال برقرار رہی۔ مسلم لیگ کو دیامر کے چار حلقوں میں غیر معمولی ووٹ پڑے جس کی وجہ سے مسلم لیگ کو تین نشستیں ملی اور چوتھی نشست معمولی فرق کے ساتھ جمیعت علما اسلام کے نام ہوئی۔

کامیاب امیدواروں کو پڑنے والے ووٹ میں سے پچاس فیصد ووٹ شخصی تھے تیس فیصد نظریاتی وابستگی اور حسب معمول جو روایت ہے لیکن اس الیکشن میں غیرمعمولی بات یہ تھی کہ تیس فیصد نظریاتی ووٹ  یوتھ کے ووٹ تھے۔ جبکہ اس سے پچھلے الیکشن میں اسی تناسب سے صرف دس فیصد ووٹ یوتھ کا تھا اب پانچ سالوں میں بتدریج بیس فیصد یوتھ نظریاتی طور پر بیدار ہوئی ہے اور ایسی طرح اگلے پانچ سال تک یہ بیداری جاری رہی تو یقیناًیہ تعداد پچاس فیصد تک جا سکتا ہے گویا کہ دیامر کے پچاس فیصد نظریاتی ووٹ یوتھ کا ہوگا۔اور یہ ایک بہت بڑی طاقت ہوگی اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دیامر میں یوتھ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بیدار ہوتی جارہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں سیاست کی اہمیت غیر روایتی طور پر مقبول ہو رہی ہے۔ جو جماعت یوتھ کو اپنی طرف لے جانے میں کامیاب ہوتی ہے وہی کامیابی حاصل کرے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دیامر کا مستقبل روشن ہے، کیونکہ دیامر کا نوجوان بدل رہا ہے۔

حکمران جماعت جس کو دیامر میں سب سے زیادہ ووٹ ملے، خا ص کر تیس فیصد یوتھ کے نظریاتی ووٹ ملے، بد قسمتی سے آنے والے دنوں میں یوتھ پر اس جماعت کا گرفت کمزور پڑ سکتا ہے چونکہ بہت سے معا ملات میں دیامر یوتھ حکومتی رویوں سے مطمئن دکھا ئی نہیں دے رہا ہے۔گاہے بگاہے مسلم لیگی نظریاتی کارکنوں کی شکایات چوکوں اور چوراہوں پر نظر آنے لگی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ دیامر کا اہم ترین مسلہ، یعنی انتظامی تقسیم ہے۔ یہ مسلہ موجودہ حکومت سے سو فیصد توقعات ہونے کے باوجود حل نہیں ہوا ہے جبکہ اسی دوران گلگت بلتستان میں کئی اضلاع معرض وجود میں آئےہیں۔

 ترقیاتی کاموں میں دیامر کا حصہ کم رہنے کی شکایات بھی ہیں۔ دوسری طرف رہی سہی کسر پارٹی قیادت نے عام کارکنوں سے دوری اختیار کر کے پوری کردی ہے۔ اب عالم یہ ہوا ہے کہ ایک ضلعی صدر ا پنے پارٹی کے قائد سے ملنے کیلے ہفتوں انتظار کر کے ناکام واپس لوٹتا ہے۔ جب ایک ضلعی صدر کی رسائی پارٹی قیادت تک نہ ہو تو عام ووٹر یا کارکن کا کیا حال ہو گا؟

حاجی وحید جوکہ مسلم ن دیامر کا صدر ہے دورِ آمریت سے آج تک پارٹی کیلے قربانیاں دیتے آرہے ہیں ان کے ساتھ پارٹی کا رویہ انتہائی افسوس ناک حد تک غیر متوقع رہا ہے۔ گزشتہ دنوں مقامی اخبار میں شائع ہونے والی خبر سے پارٹی کارکنوں میں سخت مایوسی ہوئی اور اس سے ضلع بھر میں انتہائی غم و غصہ کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ ساتھ ہی مسلم لیگ کی و عدہ وفا نہ کرنے کا مسلہ بھی ماحول کو اسطرف لے جانے میں انتہائی کار گر ثابت ہوا۔

ڈا کٹر بختاور جو علاقے کی اہم ترین شخصیت ہیں، ان سے وعدہ کرکے ساڑھے آٹھ سو ووٹ مسلم لیگ ن کیلے حاصل کیے گئے، مگر تا حال ڈا کٹر بختاور سے طے شدہ معا ملے پر عمل در امد نہیں ہوا۔ انہی رویوں نے اس مقبول جماعت کو تنزلی کی طرف دھکیل دیا ہے۔

مسلم لیگ کی حریف جماعت پیپلز پارٹی ان تمام غلطیوں سے فائدہ اٹھاناخوب جانتی ہے موقع سے فائدہ اٹھا کر نظریاتی کارکنوں کو اپنے طرف کھینچنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے جب بھی مسلم لیگ غلطی کرتی ہے فوراً پیپلز پارٹی موقع سے فائدہ اٹھا کر نا راض لیگی کارکنوں کو اپنے طرف لے جانے کی تگ ودو میں رہتی ہے۔

میرے خیال میں ایک حد تک پیپلز پارٹی ان کوششوں میں کامیاب دکھائی دیتی ہے۔

دیامر میں مسلم لیگ کے دیرینہ کارکنوں کا اس وقت دیگر پارٹیوں کے طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور ان ناراض کارکنوں کی اکثریتی کا جھکاو پیپلز پارٹی کی طرف ہے۔

اگر مسلم لیگ کا رویہ اسی طرح رہا تو یقیناً مستقبل میں اس جماعت کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button