کالمز

چترال کو دواضلاع میں تقسیم کرنا وقت کی اہم ضرورت 

قیام پاکستان کے بعد انیس سو پچاس کی دھائی میں چترال کو انتظامی لحاظ سے دو اضلاع یعنی ضلع مستوج اور ضلع چترال میں تقسیم کیا گیا تھا۔1969ء میں چترال کی ریاستی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے صوبہ سرحد( خیبر پختونخواہ) کے ملاکنڈ ڈویژن میں ضم کر دیا البتہ انضمام کے وقت ضلع مستوج کی آزاد حیثیت کا خاتمہ کر کے 14860مربع کلومیٹر رقبے پر محیط خطے کو ایک ضلع کی شکل دی گئی ۔جو کہ چترال کے عوام کے پیدائشی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ 1969ء میں ضلع چترال کی آبادی شائد ستر ہزار سے ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہوگی جو کہ اب 6لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے آج سے 45برس قبل انتظامی اور سیاسی امور اتنے پیچیدہ اور سائینٹفک نہیں تھے جتنی کہ آج ہے ۔ضلع میں بعض دور افتادہ علاقے ایسے بھی ہے جہاں تک ممبران اسمبلی، ناظمین یا پھر ضلعی انتظامیہ کے اہلکار ایک مرتبہ بھی نہیں جا سکتے۔ چترال سے بروغل ایک دن سے زائد کی مسافت پر واقع ہے ۔ اسی طرح تورکہو، موڑکہو اور لاسپور سے چترال کا فاصلہ بھی سینکڑوں کلومیٹر ہے ۔ ضلع کے اکثر طبی مراکز، عدالتیں، انتظامی دفاتر، این جی اوزسمیت متعدد ادارے چترال میں واقع ہے کسی بھی کام کے سلسلے میں بروغل کے مکین کو چترا ل آنے جانے میں دو دن درکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے علاقوں کی بھی وہی صورتحال ہے ۔

ان سارے گھمبیر مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے علاقے کے مکین گزشتہ کئی برسوں سے ضلع مستوج کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن عوام کا پر امن تحریک ’’نقار خانے میں طوطی کے آواز‘‘ کی مانند حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ہزارہ ڈویژن میں واقع نیم قبائلی علاقہ کالا ڈھاکہ کو تورغر کے نام سے ضلع کا درجہ دیا گیا یاد رہے کالاڈھاکہ کا کل رقبہ صرف آٹھ سو مربع کلومیٹر جبکہ آبادی 92ہزار کے قریب ہے۔ سن 2010ء میں جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی چترال کے دورے میں بونی تشریف لائے تو علاقے کے عمائدین ،سول سوسائٹی کے اہلکار اور عوام نے باہمی اتفاق رائے سے یک نکاتی سپاس نامہ پیش کیا جس میں ضلع مستوج کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سی ایم صاحب نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ اس سلسلے میں آئینی کمیٹی تشکیل دے کر ضروری قانون سازی کی جائے گی اور بہت جلد علاقے کے عوام کو ان کا جائز حق ملے گا۔ لیکن امیر حیدر ہوتی جونہی لواری کراس کیا اپنا کیا ہوا وعدہ بھول گئے، اسکے کے تین سال بعد ان کی حکومت ختم ہوگئی لیکن نام نہاد قوم پرستوں نے مستوج کے عوام کو ان کے پیدائشی حق دینے کی زحمت گوارا نہ کی ۔ 2013ء کے انتخابات میں برسر اقتدار آنے والی’ تبدیلی والی صوبائی سرکار‘ حکومت سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی کوہستان کو دو اضلاع اپر کوہستان اور لوئر کوہستان میں تقسیم کر دیا تھا اس کے صرف تین برس بعد ہی اسی کوہستان میں ایک اور ضلع کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ ’’کولائی ‘‘ اور’’پالس‘‘ سب ڈویژنوں پر مشتمل ہیں۔گزشتہ دنوں پشاور میں کوہستان سے تعلق رکھنے والے عمائدین کے ایک گرانڈ جرگے سے خطا ب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اس نئے ضلع کے قیام سے متعلق جن محرکات کاحوالہ دیا وہی سب چترال میں بھی موجود ہے ۔ پسماندگی ، غریب وافلاس چترال میں کوہستان سے کہیں زیادہ ہے ۔ سوال یہ ہے اگر ساڑھے سات ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط کوہستان کو تین اضلاع میں تقسیم کیا جاتا ہے تو کیوں آٹھ ہزار چھ سو مربع کلومیٹر رقبے پر محیط سب ڈویژن مستوج کی ضلعی حیثیت بحال نہیں کی جاتی ۔ ملاکنڈ ڈویژن میں واقع چترال ایک صوبہ نما ضلع ہے ۔پورے ملاکنڈ ڈویژن کے آٹھ اضلاع کا کل رقبہ 29ہزارآٹھ سو بہتر مربع کلومیٹر ہے جبکہ چترال ملاکنڈ ڈویژن کے نصف حصے یعنی چودہ ہزارآٹھ سو ساٹھ مربع کلومیٹر کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

اس سلسلے میں یقیناًایم پی اے مستوج سردارحسین ، سلیم خان اور بالخصوص خاتون ایم پی اے فوزیہ بی بی کو بھر پور کردار اداکرنے کی ضرورت ہیں ۔ کیونکہ اہالیان چترا ل کے حقوق پر گزشتہ کئی عشروں سے ڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے جو کہ اب ختم ہونا چاہئے ۔چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا ۔اس لئے پاکستان تحریک انصاف چترال کی قیادت کواس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار اداکرنا ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button