کالمز
جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
مرزا اسد اللہ خان غالب نے قصیدہ لکھا مقطع کو پڑھ کر خاقانی ہند شیخ محمد ابراہیم ذوق ناراض ہوئے بادشاہ کے استاد مکرم کی ناراضگی دور کرنے کے لئے غالب نے لاجواب قطعہ لکھا
استاد شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال
یہ تاب ،یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
اسی قطعے میں شعرہے جو قطعے کا مقطع بھی ہے
صاد ق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عاد ت نہیں مجھے
شوکت واسطی نے اپنی سوانح عمری لکھی تو اس کا نام رکھا ’’کہتا ہوں سچ‘‘سوانح عمری پر شو ر برپا ہوا تو نا قدین نے کہا عنوان کا متن سے کوئی تعلق نہیں بنتا یہ دور ،یہ عہد یہ زمانہ ہی ایسا ہے ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے سوانح عمری شائع کی ’’کا ظم علی جواں ‘‘دوست ،احباب نا راض ہوئے تو کتا ب کو مارکیٹ سے اُٹھا لیا یہاں مسئلہ جھوٹ کا نہیں سچ کا مسئلہ تھا مصنف نے ’’مصالحہ ‘‘تیز کر دیا تھا ادبی میدان میں سچ اور جھوٹ کا پتہ لگ جاتا ہے مگر سیاسی اور سماجی میدان میں اس کا پتہ نہیں لگتا انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں 1980 کے عشرے میں ہمارے دوست احباب کہا کرتے تھے خدا مزید جھوٹ نہ بلوائے اگر کوئی عرض کر تا کہ ’’مزید ‘‘کی کیا ضرورت ہے خدا جھوٹ نہ بلوائے وہ کہا کرتے تھے روزی اور روزگار کا مسئلہ ہے جو مستقل طور پر جھوٹ بولنے سے وابستہ ہے اب دعا یہ کرنی ہے کہ خدا مزید جھوٹ نہ بلوائے محکمہ اطلاعات کیلئے 1980 کا عشرہ بہت بُرا تھا سیاست میں بھی اس دور میں اتنا جھوٹ داخل ہوا کہ 3عشروں کی محنت کے بعد بھی ہم اُس سے چھٹکارا نہ پا سکے ریڈیو اور ٹی وی پر بلا تعطل یہ بیان آتا تھا کہ کہ افغان مہا جر ین کو ہم نے انسانی ہمدردی کی بنیا د پر پناہ دی ہے حالانکہ یہ امریکہ کا حکم تھا ڈالر کی ہمدردی تھی انسان کااس میں دخل ہی نہیں تھا اس طرح ایک دوسرا بیان فرحت اللہ بابر ،عظم افریدی اورعنایت اللہ ریا ض اخبارات کو جاری کیا کرتے تھے کہ افغان عوام پاکستان کی بقا کیلئے لڑ رہے ہیں عنایت اللہ ریاض نے بعد میں توبہ کر کے محمد امین مائل اور کپٹن احسان دانش کو بھی گواہ بنا یا تھا عظیم افریدی اُس دور کو یاد کر کے اب بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر تو بہ استغفار کر تے ہیں ہماری سیاست میں 1985کے غیر جما عتی انتخابات نے جھوٹ کا جو زہر داخل کیا اُس زہر کے اثرات اب تک زائل نہیں ہوئے غیر جماعتی کے لیبر روم میں جس طرح مسلم لیگ کی پیدائش ہوئی وہ سیاسی تاریخ کا عجوبہ تھا اب ہماری سیاست سے جھوٹ کو نکال دیا گیا تو کچھ بھی نہیں بچے گا مرزا غالب نے کہا ۔
ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
سیاست کے کوچے سے نکل کر جھوٹ نے اب ہماری انفرادی زندگیوں میں جگہ بنا لیا ہے وجہ یہ ہے کہ ریڈیو یا ٹی وی اور سو شل میڈیا پر سیاستدانوں کا جھوٹ صبح و شام سننے میں آتا ہے جھوٹ کو سنتے سنتے کان اس کے ساتھ مانوس ہوچکے ہیں اب زبان بھی کانوں کا ساتھ دیتی ہے آپ درزی کو کپڑے دیدیں وہ آپ کو تاریخ دے دے گا اُ س تاریخ پر کہے گا ساس مرگئی تھی کام نہ ہو سکا ،دوسری تاریخ دے دے گا وقت آنے پر کہے گا دادی اماں کا انتقال پر ملال ہواتھا وقت نہ مل سکا ،آپ کے کپڑے تیا ر ہونے تک اُ س کنبے میں کم از کم چار اموات اور تین مہلک بیماریاں آئینگی ملازم بھی چھٹی لینے کیلئے اس طرح کے بہانے بنا تا ہے دادا کی وفات ،باپ کی وفات ،ماں کی بیماری ،سسر کا انتقال ،پھوپھی کی فوتیدگی وغیر ہ ایسے پے درپے حادثات پیش آتے ہیں افیسر مجبوراًچھٹی دیدیتا ہے ایک ملازم نے سال کے اندر اس طرح کے عذر پیش کر کے 10بار چھٹی لی تو افیسر نے کہا آئندہ کسی کی مو ت پر چھٹی نہیں ملے گی اگلی چھٹی کے لئے ملازم نے درخواست میں لکھا کہ گھر سے فون آیا ہے ضروری کام ہے افیسر نے کہا ،ریکارڈ کے مطابق تمہارے گھر میں بیوی رہ گئی تھی پچھلے ماہ اُس کے جنازے کو کندھا دینے کیلئے تم نے چھٹی لی اب گھر سے کون فون کرتا ہے ؟ ملازم نے کہا بیوی کا چہلم ہے افیسر نے کہا چہلم میں 12دن باقی ہیں ملازم نے کہا ہمارے گاوں میں 4ہفتے بعد چہلم ہوتا ہے ماہر لسانیات ڈاکٹر ایلینا بشیر نے ایک بار شکایت کی کہ میرے گھر کا چوکیدار جھوٹ بولتا ہے اُس کی جگہ نیا بندہ رکھنا چاہتی ہوں چوکیدا ر بہت اچھا آدمی تھا ڈاکٹر صاحبہ کا پڑوسی بھی تھا ہم نے پوچھا اُس نے کیا جھوٹ بولا ہے ؟ ڈاکٹر ایلینا بشیر نے بتایا کہ کل وہ سٹاپ پر کھڑا تھا میں نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ اس نے کہا کہیں بھی نہیں تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا اس نے سوزوکی کو رکنے کا اشارہ کیا اور بازار چلا گیا ہم نے کہا اس قسم کی بات کوہم جھوٹ نہیں سمجھتے یہ معمول کا واقعہ ہے ہم راہ چلتے اپنے آنے جانے کا پلان اپنے اچھے بُرے عزائم کسی کو نہیں بتاتے ،ہمارے ہاتھوں میں چار شاپر سودا سلف سے بھرے ہونگے ،کوئی پوچھے کیا لیکر آرہے ہو ؟ ہم معصومیت سے کہینگے کچھ بھی نہیں اور یہ ہمارے حساب سے جھوٹ میں شمار نہیں ہوتا ڈاکٹر ایلینا بشیر نے سر د آہ بھرتے ہوئے کہا یہ جھوٹ ہے نا ،سراسر جھوٹ ہے اور اس کو جھوٹ نہ سمجھنا بہت بڑا جھوٹ ہے ہم نے پوچھا امریکہ میں ایسے سوال کا کیا جو اب ملتا ہے ؟ ڈاکٹر ایلینا بشیر نے کہا وہاں کسی کے پاس اس طرح کے سوال پوچھنے کا وقت نہیں ہوتا اگر کوئی ایسا سوال پوچھے تو پوری تفصیل بتائی جاتی ہے کہ دو دکلو پیاز ،ایک کلو ٹماٹر ،آدھہ سیر گوشت ،ایک ڈبل روٹی اور تین ملک پیک لیکر آرہا ہوں وہ ہر چیز کا نام لے گا جھوٹ نہیں بولا جاتا ڈاکٹر ایلنیا بشیر نے کہا کیا تمہارے ہاں بچوں کو سچ بولنے کی نصیحت نہیں کی جاتی ؟ ہم نے کہا با لکل نصیحت ہوتی ہے ہم کہتے ہیں بیٹا جھوٹ مت بولو ،تھوڑی بعد ٹیلیفون یا دروازے کی گھنٹی بجتی ہے تو ہم بچے سے کہتے ہیں اگر کوئی میرا پوچھے تو اس کو بتاؤ کہ ابو گھر پر نہیں ہیں یہ سن کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی ہم نے کہا ہمارے بہت بڑے شاعر مر زا غالب نے اس پربھی ایک شعر کہا ہے ان کی غز ل کا شعر ہے ۔
قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادہِ الفت
فقط ’’خراب ‘‘لکھا بس نہ چل سکا قلم آگے