کالمز

عظیم لوگوں کی تقلید

شیر جہان ساحلؔ

ماؤزے تنگ کمیونسٹ رہنما اور عوامی جمہوریہ چین کے بانی ۱۶ دسمبر 1893 ء کوچین کے صوبہ حانان کے گاؤن شوشان میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ماؤزے تنگ بیسوین صدی کے انتہائی پراثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ مارکسزم سے متاثر تھے اور اسی پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے چین میں کمیونسٹ انقلاب برپا کردیا۔ مارکسزم جو کہ ایک جرمن Sociologist کارل مارکس نے سماجی و سیاسی نظریہ (Socio-political theory) کے طور پر ایک نظریہ پیش کیا تھا جو مارکسزم کے نام پر مشہور ہے۔ ماؤزے تنگ 1917 ء کے بعد بیجنگ میں پیکنگ یونیورسٹی کے لائبریری میں ملازمت اختیار کی ۔ جہاں اسے مطالعے کے لئے وافر مقدار میں کتابین میسر ہوئیں اور اس دوران وہ مارکسزم کا مطالعہ کیا اور اسے متاثر ہوا۔ اور انجام یہ ہوا کہ 1949 ء میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی اور سوشلسٹ انقلاب برپا کردیا۔اور آج بھی چینی لوگ اسی نظریے پر عمل پیرا ہیں اور ایک عظیم قوم کے طور پر دنیا میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ آزادی کے ایک سال بعد چینی باشندون بے یہ فیصلہ کیا کہ ماؤ ہمارا رول ماڈل ہے اور اسی کے نظریے پر عمل کریں گے اور چین کو دنیا میں ایک عظیم ریاست کے طور پر برقرار رکھیں گے۔ اور ماؤازم کو بطور نظریہ اپنائیں گے۔ اس کے بعد مختصر عرصے میں چین اقوام متحدہ میں ویٹو پاور حاصل کیا اور ایک منعظم طریقے سے دن دگنی اور رات چوکنی ترقی کی منزلین طئے کررہی ہے۔ اور یہ چینی قوم کی مخلصیت کو شو کررہا ہے کہ وہ اپنے عظیم لیڈر کے نظریے پر کسطرح عمل کررہے ہیں۔

اب ہم پاکستانی بطور قوم اپنے آپ کو چینیون سے موازنہ کرتے ہیں۔ عظیم لوگون کی تقلید ہم بھی کرتے ہیں اور زور و شور سے کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی عظیم لوگوں کی نظریات اور نشانیان موجود ہیں اور ہم بھی ان پر عمل کرتے ہیں۔ مگر طریقہ اور نیت میں فرق ہے۔

ہم سب سے پہلے قائد اعظم کو لیتے ہیں جسے بابائے قوم کادرجہ حاصل ہے۔ آزادی کے بعد۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا” کہ اسمبلی کے دو اہم کام ہیں ایک ملک کے لئے عبوری آئین لکھنا اور دوسرا اس دوران حکومت چلانا۔ اور فوری مسائل کا ذکرکرتے ہوئے انہون نے کہا کہ: امن و امان، (زندگی ، جائیداد اور مذہبی عقائد سب کے لئے محفوظ ہونگے)کی بحالی، رشوت ، بلیک مارکیٹنگ، اقربرپاری (Nepotism) کی روکتھام ضروری اولین ترجح ہے۔

انہون نے مزید کہا کہ پاکستان بہت سی قربانیون کے بعد وجود میں لایا گیا ہے۔ وقت آنے پر ہم سب ایک قوم ہیں کوئی ہندو نہیں اور کوئی مسلمان نہیں سب پاکستانی ہیں اور یہ مذہبی لحاظ سے الگ ہے کہ ہر کسی کا عقیدہ اس کا ذاتی معاملہ ہے "

چونکہ ایک سال بعد قائد کا انتقال ہوا تو ملک کا بھاگ دوڑ ہمیں سنبھالنا پڑا۔ ہم نے بھی عہد کیے کہ ہم قائد کی پیروی کریں گے۔ تو آیئے دیکھتے ہیں کہ ہم نے کیااور کیسے کئے۔ قائد نے سب پہلے عبوری دستور کے لئے کہا تھا مگر ہم لوگوں نے ۲۵ سال تک بے غیرکسی دستور کے ملک چلاتے رہے اور انجام یہ ہوا کہ ملک دولخت ہوا اور دوسرا قائد نے مذہبی آزادی اور ملی یکجہتی کاکہا تھا۔ مگر قائد کے وفات کے بعد ہم نے مذہب کو ریاست کے ساتھ ملادیا اور مذہبی آزادی کو تقریباً ستیاناس کرکے رکھ دیا جس کا انجام یہ ہوا کہ ہم مذہبی انتہا پسندی کے آڑ میں پڑھ گئے اور ملی یکجہتی سے تقریباً غافل ہوگئے جس کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے ملک کے عبادت خانون میں انسانون کا خون بہایا جا رہا ہے مگر ہم افسوس اور مزمت بھی انسانیت کے بجائے مذہب کے بنیاد پر کرتے ہیں اور ہم تقریباً انسانیت بھول چکے ہیں اور اسکا ایک اور اہم و تازہ مثال ۷ اپریل کو ہونے والا جمعیت (ف)کا وہ صدسالہ تقریبات ہیں جس میں شرکت کے لئے بار بار یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ فرزندان توحید سے اپیل ہے کہ وہ جمعیت کے صدسالہ تقریبات میں شرکت کریں ۔ حالانکہ یہ ایک سیاسی جماعت کا جلسہ ہے اور اس نعرے کی رو سے اگر دیکھا جائے تو وہاں توحید جوکہ مسلمانون کا عقیدہ ہے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور جو لو گ اس اجتماع میں نہیں جائیں گے کیا وہ عقیدہ توحید سے خارج ہونگے یا پھر فرزند توحید نہیں رہیں گے؟؟؟۔۔۔۔

اس کے بعد بھٹو کا دور آتا ہے جو کہ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ انہون نے قائد کی خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے ملک کو ایک عبوری آئین دیا اور تقریباً ملی یکجہتی کو پھر سے زندہ کرنے کی بھرپور کوشش کئے۔ چونکہ بھٹو بھی مارکسزم اور ماؤازم سے متاثر تھے اور سوشلسٹ نظریے کے پیروکار تھے۔ مگر بد قسمتی سے بھٹو عالمی اور ملکی جاگیردارون اور مذہبی ٹھکدارون کے شکنجے میں آیا اور بھٹو دورکا خاتمہ ہوا اس کے بعد بھٹوازم کو اپنانے کا عہد کرتے ہوئے ہم اس تحریک کو جاری رکھے مگر آج بھٹوکے نام پر موقع پرستون کا جہدوجہد جاری ہے مگرلگ رہا ہے کہ بھٹوازم بھٹو کے ساتھ ہی دفن شد۔ ہم کامیاب لوگوں کے پیروکار بن جاتے ہیں ان کی نشانیون کو اپناتے ہیں تو صرف اور صرف ذاتی فائدے کے لئے ۔ہمارا معاشرہ ایسے ہزارون مثالون سے بھری پڑی جہاں ہم تقلید تو کرتے ہیں مگر ہماری نیت میں کھوٹ ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں صرف بھٹو ہی نہیں بلکہ ہم ان تمام لوگون کے نظریون کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں جن کا ہم پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ ہم صرف نظریے کی حد تک نہیں بلکہ ایمان کیحد تک گر چکے ہیں۔ اور وہ یوں کہ ہم اولیا ء دین یا پھربزرگانان ہند کے ! جس کسی کے بھی نشانیان ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور ہم انہیں اپنے ایمان کا حصہ تصور کرتے ہیں اوران کو ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور وہ یوں کہ دربارون میں چرس کا استعمال اور چرس کے کاروبار کی خبرین جو سننے کو ملتے ہیں ۔ ہمارے سامنے مدارس سے دہشت گردون کے روابط کے واقعات معمول بن چکے ہیں ۔ کیون؟ آخر کیا وجہ ہے؟ ۔۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہم نظریے کو ذاتی مقصد اور ذاتی فائدے کی حد تک پیروی کرتے ہیں اور نظریہ چاہئے دین کا ہو یا دنیا کا!! کارل مارکس کا ہو یا محمدﷺ کا ۔ ہم ہر نظریے کو ذاتی فائدے کے لئے استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ مدارس جو کبھی امت کے لئے خیر خواہی کا درس دیا کرتے ہیں آج وہی مدارس امت کے لئے مسائل کا سبب بن رہے ہیں کیونکہ ہماری سوچ امت سے ہٹ کر ذاتی فائدے تک محدود ہو چکی ہے۔ اور امت و ملت کی یہ حالت دیکھ کر یہ الفاظ بیجا طور پر ذہن میں آجاتے ہیں کہ شکر ہے کہ اگر خانہ کعبہ ” جسے مسلمان انتہائی عقیدت رکھتے ہیں”ہمارے ملک میں ہوتا تو نہ جانے اسے ہم کن کن مقاصد کے لئے استعمال کرتے؟؟ ؟

اللہ تعالی سے دعا کہ وہ ہم سب کی ایمان سلامت رکھے اور صح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ آمین۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button