چترال

لواری ٹاپ کو فوری طور پر ٹریفک کیلئے کھول دیا جائے۔ ٹنل کے سامنے مسافروں کو مشکلات کا سامنا

چترال(گل حماد فاروقی) چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والا واحد زمینی راستہ لواری ٹاپ شدید برف باری کے باعث ہر قسم ٹریفک کیلئے بند ہے جس کی وجہ سے چترال کے لوگوں کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لواری ٹاپ کی بندش کی صورت میں اسی پہاڑ کے نیچے زیر تعمیر سرنگ جسے لواری ٹنل کہتے ہیں مسافروں کو ہفے میں صرف دو دن سفر کی اجازت ملتی ہے۔

لواری ٹنل کے سامنے صبح سے آئے ہوئے گاڑیاں قطار میں کھڑی ہوتی ہیں تاہم مسافروں کیلئے وہاں کوئی سہولت نہیں ہے حاص کر خواتین اور بچوں کیلئے بشری تقاضے پورے کرنے کی کوئی سہوت دستیاب نہیں ہے اور وہاں کئی گھنٹے انتظار پر مجبور خواتین اور بچوں کو نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب بارش یا ژالہ باری اور برف باری ہو تو اس وقت لوگ سردی سے ٹٹھر تے ہیں ۔ چند سال قبل سرحد رورل سپورٹ پروگرام کی جانب سے دیر کی جانب لواری ٹنل کے سامنے خواتین اور بچوں کیلئے کنٹینر میں انتظار گاہ بنائے گئے تھے مگر تعمیراتی کام کے عرض سے ان کنٹینر کو وہاں سے ہٹایا گیا ہے جو زیادہ تر وہاں تعینات سرکاری عملہ کے زیر استعمال آتا ہے۔

چند روز قبل مقامی اخبارات میں لواری ٹاپ کے کھلنے کی خبریں شائع ہوئی تھی مگر مسافروں اور ٹرانسپورٹروں کا کہنا ہے کہ وہاں کئی برفانی تودے گر چکے ہیں جس کی وجہ سے وہاں سے گاڑی گزرنا مشکل بالکل ناممکن اور حطرناک بھی ہے۔

چترال کے لوگوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ہدایت کرے کہ لواری ٹنل کے اندر سے وقتاً فوقتاً چھوٹے گاڑیوں کو چھوڑا کرے کیونکہ یہ گاڑی مشنری کی باوجود بھی گزرسکتی ہے اور وہ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ لواری ٹاپ سے برف ہٹاکر اسے فوری طور پر ٹریفک کیلئے کھول دیا جائے تاکہ لواری سرنگ کے سامنے کئی گھنٹے انتظار نہ کرنا پڑے۔

ایک مسافر نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ زیارت کے مقام پر چھوٹے سرنگ سے NHA حکام صرف سفارشی اور با اثر افراد کو چھوڑتے ہیں اور باقی لوگوں کو مشین چڑھائی جیسے حطرناک سڑک پر سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں جہاں کئی گاڑیاں حادثے کے شکار بھی ہوئے ہیں۔ ہمارے نمائندے نے خود اسی ٹنل سے سفر کے دوران سامبو کمپنی اور این ایچ اے حکام کے کافی محالفت کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے بہانہ کیا کہ اندر کام ہورہا ہے اور ہمارے نمائندے کو چھوٹے سرنگ سے سفر کی اجازت نہیں دی۔ مگر عین اسی دوران ایک با اثر شحص کا گاڑی آیا جسے پورے پروٹوکول کے ساتھ اندر چھوڑا گیا تو صحافی نے بھی ضد کیا کہ ان کو بھی اندر سے گزرنے کی اجازت دی جائے کافی گفت و شنید کے بعد جب اسے چھوڑا گیا تو پتہ چلا کہ اندر کوئی کام نہیں ہورہا ہے مگر این ایچ اے حکام اور سامبو کمپنی کے اہلکار صرف مسافروں کو تنگ کرنے کی عرض سے چھوٹے سرنگ میں نہیں چھوڑتے اور ان کو زیارت کے لمبے سڑک سے سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

چترال کے عوام نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں تحقیقات کی جائے کہ زیارت اور لواری کے درمیان چھوٹے سرنگ سے مسافروں کو کیوں نہیں چھوڑتے اور وہ یہ سوال کرنے پر بھی حق بجانب ہیں کہ آیا یہ سرنگ صرف بااثر افراد اور افسران کیلئے بنا ہے یا عام لوگوں کو بھی اس سے سفر کی اجازت ملنا چاہئے؟ اور اگر یہ عملہ جان بوجھ کر لوگوں کو تنگ کرنے کیلئے اس چھوٹے سرنگ میں مسافروں کو نہیں چھوڑتے اور ان کو زیارت کے حطرناک سڑک سے سفر کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو ان کے حلاف تادیبی کاروائی کی جائے جو آج تک نہیں ہوئی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ لواری سرنگ روڈ کی دونوں جانب (دیر اور چترال) پر سڑک انتہائی حراب ہے جہاں مقامی لوگوں نے پانی کے نہروں پر لکڑی رکھے ہوئے ہیں اور ہر گاڑی سے پیسے وصول کرتے ہیں جو ان سرکاری اداروں کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے عوام یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی فوری طور پر ان نہروں پر پُل باندھے یا خود ہی لکڑی رکھ کر اس پر گاڑیاں گزارنے دیں تاکہ ان گاڑیوں سے مقامی لوگ پیسے وصول نہ کرے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button