بلاگز

ممتحن اعلیٰ

کئی سالوں کی سروس کے بعد تیسری بار کسی امتحان میں ڈیوٹی لگی تھی ۔۔امتحانوں کا تقدس اور روح ویسے بھی ہمارے ہاتھوں مجروح ہو چکا ہے ۔رہی سہی لاج بچوں کی خدمات اور امتحانی عملے کے ارد گرد منڈلانا اور ان کے والدیں کا عملے کو نان شیراز سے تواضع کرنا ، اور ان کا بے خلوص احترام کرنا ختم کر دی ہے ۔۔یہ تو مسلمہ ہے کہ استاد ہر زمانے میں محترم رہا ہے ۔۔۔مگر اس کو اپنے مقام کی لاج رکھنا آتا ہو ۔۔اس کی خوداری اور اہلیت بے مثال ہو ۔۔وہ لالچ سے پاک ہو ۔۔اس کا بڑا دل ہو وہ صداقت کی چٹان ہو ۔۔زمانے نے ایسے اساتذہ کم  کم ہی دیکھے ہیں ۔۔ہاں تو ڈیوٹی لگی ۔۔لالچ اتوار کی چھٹیوں میں گھر جانے کی تھی ۔۔یار لوگوں نے گورنمنٹ ہائی سکول لنکوہ کا انتخاب کیا ۔۔بھائی سید جمال الدین آرڈر اور سپرٹنڈنٹ فائیل لے آیا ۔۔اپنے گاؤں سے متعلق ضروری ہدایات دیں۔۔۱۳ مارچ کو شہر سے روانگی ہوئی ۔بورڈکے ضروری سامان محمد سعید خان نمائیندہ بورڈ دو دن پہلے لے گئے تھے ۔۔جو سر راہ ملتا ڈیوٹی کا پوچھتا ۔بتانے کو شرم آتی۔۔ اس لئے کئی بار جھوٹ بولنا پڑا۔۔ساتھیوں کی اجنبیت دور ہوتی رہی ۔دوستی کا بھرم رکھنے لگے ۔رشتے ناتے از سر نو جڑنے لگے ۔۔زمہ داری کا احساس ہونے لگا ۔۔ایسا لگا کہ قدم بھاری ہونے لگے ہیں ۔۔بھائی شفع الرحمن اپنی گاڑی لے کے استقبال کے لئے آئے۔۔پہلی دفعہ اس کی زبان سے اپنے لئے’’ سر ‘‘کا لفظ سن کر لرزہ براندام ہوا ۔۔یا اللہ لوگوں کو یکدم یہ کیا ہو جاتا ہے ۔۔

’’یہ گاڑی آپ کی ہے ۔۔میں آپ کا اپنا ہوں ۔۔وہاں پر تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی ۔۔تم ہمارے اپنے ہو ۔۔”

یہ سب جملے سن کر مجھے شفع پر غصہ آتا اور اپنے آپ سے شرم آتا ۔۔شفیع یاروں کا یار ہے اور ہر ایک کا یار غار ہے ۔۔جس پر سب کو اتفاق ہے ۔۔سکول نظر آیا ۔۔بچے ادھر ادھر پھرتے دکھائی دئے۔۔سر لوگ سب سکول کے گراونڈ میں کھڑے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ۔۔۔ہم گاڑی سے اترے ۔۔بچوں نے بیگ اٹھایا ۔۔اور ایسی معصومیت سے دیکھنے لگے کہ دل پسیج گیا ۔۔دل چاہا کہ سب کو گلے لگا کے کہہ دوں ۔۔بیٹا تم لوگ میری زندگی ہو۔۔ اور مصیبت یہ ہے کہ قوم کا مستقبل تم سے وابستہ ہے ۔۔۔سکول کے گراونڈمیں سارے اساتذہ سے جھک کے ملا ۔۔کہنے والوں نے بہت بعد میں کہا ۔۔ کہ سپرٹنڈنٹ ایسا نہیں ہوتا وہ کسی سے جھک کے نہیں ملتا۔اس کو اپنے مرتبے کا خیال ہوتا ہے۔ وہ اٹھلاتا ہے اکھڑا ہوا ہوتا ۔۔

ہم نے شفیع سے کہا ’’ظالم ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا مرتبے کا مزہ ہم بھی لیتے ۔۔ایک کمرے میں خاصے پرانے کارپٹ کے اوپر چند جوڑے واجبی بستر تھے ا۔یک عدد میز تھی چند ’’دیگر ‘‘ سامان مثلا ڈرائی سیل سولر کے لئے، دو چار کتابیں ،چھتری ، پرانے جوتے ، پلاسٹک کے چپل ۔۔آگ جلانے کے لئے ٹن[منقل]رکھے ہوئے تھے ۔۔ہر استاد بے تابی سے منقل کے قریب آتا اور آگ دیکھ کر تسلی کرتا ۔۔لوگ ملتے گئے چائے پلائی گئی ۔۔دوپہر کا واجبی کھانا تھا ہر ایک نے تسلی دی کہ ہمارا دستور ہے کہ ہم دوپہر کا کھانا سکول میں کھا کے چھٹی کرتے ہیں ۔۔۔بتایا کہ آفیسروں نے اس پہ ہماری تعریفیں کی ہیں ۔۔میں نے دل میں کہا کہ میں بھی آپ کی تعریف کر رہا ہوں ۔۔میری کو شش تھی کہ میں امتحانی عملے کی روایتی پرٹوکول سے احتراز کروں ۔۔سب مجھے بھائی سمجھیں ۔۔بڑا یا چھوٹا ۔۔مگر شریف بھائی ۔۔مجھے اپنے احترام کی کوئی فکر نہیں تھی اگر خواہ مخواہ کوئی احترام جتاتا تو میں پانی پانی ہو جاتا ۔۔موسم ابر آلود تھا۔ ساتھی آتے گئے ۔ امتحانی سکوارڈن پورا ہوا بلکہ اضافہ ہوا ۔۔یہ علام اسحاق ڈپٹی ،یہ مولانا امان اللہ نگران ،یہ ذاکر علی شاہ ،یہ لعل خان ،یہ حضرت الدیں ،یہ معفرہ ناز۔۔۔ہم نے روایتی پروٹوکول سے توبہ کی اور محسوس نہ کرنے کا عہد کیا ۔۔اپنے ضروری انتظامات کئے ۔۔صبح انتحانی ہال سجنے تک بچوں اور اساتذہ پر ہمارا خوف طاری رہا ۔۔

جب صبح ہر کمرے میں جا کر سپر ٹنڈنٹ نے کہا کہ ہم تمہارے بھائی ہیں ۔۔تسلی اس وقت تک بھی نہیں ہوئی جب بھائی ہونے کا ثبوت نہیں دیا گیا ۔۔بچے تھے کہ تن بہ تقدیر تھے ۔۔محنت قوم کی پہچان ہوتی ہے کس کو الزام دیا جائے۔۔۔زمانے کے تقاضوں کو ۔۔وقت کی کارستانیوں کو ۔۔موج مستی کو۔۔جوانی دیوانی کو ۔۔والدیں کی لاپرواہی کو ۔۔استاد کے تجاہل عارفانہ کو ۔۔غیر معیاری امتحانات کو ۔۔اور سارے اسباب کو ۔۔۔یہ تو حقیقت ہے کہ وہ روایتی سخت کوشی اور سخت جانی ہم سے روٹھ گئی ہے ۔۔دن گذرتے گئے ۔۔بارش ،اندھی ۔۔بجلی کی آنکھ مچولی ۔۔ٹیلی فون کی سہولیات کا نہ ہونا ۔۔برف ۔۔راستوں کابند ہونا ۔۔یہ سب برداشت کرنے پڑتے ۔۔صبح ساتھی آکر حال احوال پوچھتے تو ’’سب ٹھیک‘‘ کہنا پڑتا ۔۔آصف نوجواں ایس ایس ٹی استاد ہیں ۔۔بچوں کے پسندیدہ استاد ہیں ۔۔سپورٹس مین ہیں ۔۔۔یار وفادار ہیں۔ اس لئے سائے کی طرح ساتھ رہے ۔۔اعظم لال ۔نظام۔۔پروانہ کلاس فیلوز ۔۔قاری فضل قدیر ۔۔حبیب۔۔اور خاص کر دوسرے سئنیر معزز اساتذہ ہمارے احترام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے ۔۔ان کا احترام ہم پہ قرض ہوتا رہا ۔۔گاؤں کے لوگ حیران تھے کہ یہ لوگ اپنے مرتبے کا خیال کیوں نہیں کرتے ۔۔چچا عظمت بار بار کہتا ۔۔۔میری دعا قبول ہوئی ہے ۔۔دعا کس واسطے تھی قبول کیوں کر ہوئی تھی یہ ہمیں اندازہ نہیں ہوا ۔۔قاری قادر سے میسنگ کے سلسلے میں مڈبھیر ہوتی وہ تسلی دیتا ۔۔بچے بچیاں کتنے دوستوں کے بچے ۔۔رشتہ داروں کے متعلقیں ۔جاننے والے ۔نعوذباللہ سفارشی ۔۔لیکن ہم نے عہد کیا تھا کہ ہمارے پاس استاد کی نظر ہے مسیحا اور شاہین کی نظر جس کے آگے سب برابر ہوتے ہیں ۔۔ہم سب محسوس کر رہے تھے ۔۔۔’کہ سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری ہے مگر ۔۔‘‘

ہماری کوتاہیاں اپنی جگہ مگر ہمارا وقار بڑھ گیا تھا ۔۔۔میرے ساتھیوں کو میرے مزاج کا پتہ چلا تھا ۔۔ہم گاؤں نہیں جا سکتے تھے ۔۔نہ کوئی گاؤں والا ادھر آتا ۔۔کچھ اساتذہ نے حد سے بڑھ کر احترام کیا ۔۔حبیب الرحمن کے گھر تک گئے ۔۔نظام اور حبیب نے میزبانی کی حد کر دی ۔۔میرے محترم قاری استاد کو اصرار تھا کہ میں اس کے استاد کا بیٹا ہوں ۔۔حضرت الدین ساتھی تھے ہی ۔۔ میڈم معفیرا ناز نے اپنے گھر میں ہفت خوان سجایا۔۔میں اکثر خان کو کہتا کہ مجھے احترام پہ اعتراض نہیں لیکن کوئی احترام کے قابل ہو تو ۔۔۔

خان سارے کام خود کرتا اور اتنا ذمہ دار آدمی میں نے کم کم دیکھا ۔۔اس کے کام دیکھنے کے قابل ہوتے ۔۔آصف ہمارا پروٹوکول آفیسر تھے ۔۔شمس الرحمن ہر رات گھر جانے کی چھٹی لیتے تو ہنسی آتی ۔۔کہ مرضی اس کی اجازت ہماری ۔۔یہ ۲۲ دن کی زندگی ایک داستان ہے جو آہستہ آہستہ دھرایا جائے گا ۔۔مگر میں ساتھیوں کی عظمت نہیں بھول سکتا ۔۔جب آصف نے ہمارے اعزاز میں محفل شعر وسخن منعقد کرایا ۔اور مجھ پہ ماہر تعلیم ، دانشور معروف ادیب اور کالم نگار کا الزام لگایا ۔۔ محمد سعید خان واقعی ایک ماہر تعلیم تھے ظالم نے سب کچھ پڑھا تھا جس موضوع کو اٹھا تے اس پر سیر حاصل تبصیرہ کرتے ۔یہ رداد الگ لکھی جائے گی ۔۔۔معفرہ ناز نے اپنا محترم ’’سر‘‘ کہہ کر ایک روایتی انگوٹھی پیش کی ۔۔حبیب ہاتھ کی بنی سوئیٹر لا کے خود پہنا دی ۔۔مجھے اس فقیر سپرٹنڈنٹ پہ ہنسی آئی ۔۔۔یہ ہے تیری صداقت اور پروٹوکول نہ لینے کا انداز ۔۔۔

ہیڈ ماسٹر اقبال حسین صاحب کی شرافت کی حد ہی نہیں ۔۔انہوں نے اپنے بے مثال اخلاق سے سب کو متاثر کیا ۔۔امتحان ختم ہونے میں دو دن رہ گئے تھے ہم امین کی دعاوءں اور بچوں کی محبتوں میں ڈوب سے گئے تھے ۔۔شفیع میرے سفیدی مائیل اوور کوٹ کا کالر اپنے ہاتھوں سے درست کر رہا تھا اور کوٹ کی تعریفیں کرتے ہوئے مجھے تسلی دے رہا تھا ۔۔۔۔۔  لیکن میری نظریں کوٹ کے ٹوٹے ہوئے بٹن پہ جمی تھیں اور دل کہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ جس کا اوور کوٹ ہے وہ تو پیارا ہے ۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button