کالمز
سنا ہے قتلِ سورج ہو گیا ہے
دنیا کے کسی خطے میں آبادکسی قوم کے گردشِ خون میں جب سطحی مذہبیت سے مملو غلیظ عناصر سرایت کر جائیں تومذہب انسان کی روحانی تسکین کا سامان مہیا کرنے کے بجائے قتلِ عام کا باعث بنتا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان بھی مذہبی جنونیت کا شکار ایک بدقسمت ملک ہے اب جس ریاست کی بنیاد ہی مذہب کے نام پر ہو یاجس کے خمیر میں ہی انتہا پسندی ،تعصبات کے ساتھ ساتھ ہزاروں بے گناہ افراد کا خون شامل ہوتو اس درندہ صفت معاشرے میں فکر و فراست رکھنے والے کسی حساس فرد کا زندہ رہنا محال ہو جاتاہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق مردان کے عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے طالب علم مشعل خان کو عقل دشمن اور جہالت کے علمبرداروں نے توہینِ رسالت کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتارا اور خوب ثواب کمایا اور جنت کے حقدار پائے۔
سنا ہے قتلِ سورج ہو گیا ہے
وقوعہ پر اندھیرے جا رہے ہیں
مذہبی بنیاد پرستی اور مذہبی جنون کسی بھی ریاست میں بسنے والی قوم کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے ساتھ ساتھ فہم و فراست کو اجتماعی طور پر ماؤف کرنے کا باعث بنتا ہے بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ رجعت پسندی اور مذہبی جنونیت کا شکار ہے اگر اس بابت غور کیا جائے تو اس کی سب سے بڑی وجہ جہالت اور فکری جمود ہے ۔ایک دانشور کے بقول کہ کوئی بھی معاشرہ فحاشیت سے کہیں زیادہ فکری جمود کے باعث تباہ و برباد ہو جاتاہے اور بد قسمتی سے پاکستانی قوم فکری جمود کا شکار ہے اور جب تک کسی معاشرے میں علم کی روشنی پھیلا کر فکری جمود کے بت کو نہیں تو ڑا جاتا مذہب انسان کے قتل و غارت کا باعث بنتا ہے۔حضرت محمدْ ﷺ کی پاک ذات تما م عالم کے لئے رحمت کاباعث ہے اور ان کی عظیم ذات رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے رحمت کی ضامن ہے۔ایک ایسی ذات جس نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے دشمنوں کو عام معافی دی اور جس کے ہاتھ سخت صعوبتیں اور مصبتیں جھیلنے کے باوجود کبھی امت کے واسطے دہائی کے لئے نہیں اٹھے اسی ذات کے اسم مبارک کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرکے ایک محلے کی مسجد کے کم علم ملّا کو آخر کس نے اختیار دیا کہ وہ کسی انسان کی زندگی اور موت کا فیصلہ صادر کرسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟آج اسی انسان دشمنی سے متصل مّلاؤں کی فرسودہ افکار دنیائے عالم میں اسلام کی بد نامی کا سبب بن رہے ہیں۔آج ایک ملّا ہوائی جہاز میں سفر کرکے جج کا فریضہ ادا کر تا ہے اور ایڈیسن کی ایجاد کردہ بلب کی روشنی میں دینی فرائض ادا کر تا ہے لیکن بقول ملّا کی کسی انگریز سائنسدان کے لئے جنت کی خوشبو تک حرام ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ جس شخص نے دنیا کو روشنیوں اور نور سے جگمگایااسی پر جنت حرام ہے جبکہ جس شخص (ملّا)نے انسانیت کو تاریکیوں کے سوا کچھ نہیں دیا وہ جنت کا حقدار ٹھہرا۔میرے خیال میں غیر مدلّل یقین پر مبنی ایمان سے کامل یقین پر مبنی کفر ہزار درجہ بہتر ہے کم از کم یہ انسان کی قتل و غارت کا باعث تو نہیں بنتا۔اب اگر کوئی معاشرہ اپنی فکری جمود کے باعث کسی قاتل کو مسیحا کا شرف بخشے اور جہاں ممتاز قادری جیسے سفاک قاتل کو مزار کو تعمیر کراکے پرستش کرنے کا رواج عام ہو اور ریاست خاموش تماشاء کا کردار ادا کرے تو اس ریاست میں جنگل کا قانون نافذ ہونے میں بھی دیر نہیں لگتی ۔اسی سبب کبھی مسیحی حاملہ خاتون کو شوہر کے ہمرا ہ بھٹی کی آگ میں زندہ بھون کر اسلام کی خوب خدمت کی جاتی ہے تو کبھی راشد رحمان جیسے انسان دوست وکیل کو حق کا ساتھ دینے کے جرم میں گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔کبھی مسعود احمد جیسے مسیحا کو ملک بدر ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔تو کبھی سلمان تاثیر جیسے ہمدرد انسان کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔کبھی پروفیسر جنید جیسے مفکر کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے تو کبھی مشعل خان جیسے نوجوان کا خون بہایا جاتا ہے۔
حیرت سے تک رہی ہیں عقیدت کی بستیاں
اک کا ئنات کتنے خداؤں کی زد میں ہے