کالمز
مسجد وزیرخان کا تاریخی ورثہ
فرانس ، روس ، چین اور ایران کی انقلابی حکومتوں نے ماضی کے حکمرانوں کا تختہ اُلٹ دیا مگر اس دور کے تاریخی ورثے کا تحفظ کیا تاریخی عمارتوں کو قومی یادگار قرار دیا وطن عزیز پاکستان میں نہ انقلاب آیا نہ قومی ورثے کا تحفظ ہوا انقلاب کے بعد قومی ورثہ برباد ہوتا تو انقلابیوں پرالزام لگا جاتا ہمارے تاریخی قلعے ،تاریخی مساجد ، تاریخی مزارات مقبرے اور حمام ویسے ہی اپنوں کے ہاتھوں بربادی اور تباہی سے دوچار ہوئے پشاور میں مسجد محبت خان چترال میں شاہی قلعہ اور شاہی مسجد مخدوش حالت میں ہیں لاہور میں مسجد وزیر خان ایسے ہی یاد گار ہے دلی دروازے کے اندر گنجان آباد محلہ میں واقع یہ مسجد چار سو سال(400) پرانے ہیں اس کی تعمیر میں سیمنٹ اور سریا کے بغیر ہوئی مگر طرز تعمیر میں سیمنٹ اور سر ئے کے عمارات سے پختگی ہے مغل تاجدارشاہ جہان کے عہدے میں شاہ جہانی عمارت مساجد اور مزرات کے طرز پر لاہو ر کے صوبیدار رہے یہ گورنر کے برابر کے عہد ہ ہے اگر چہ ان کا نام وزیر خان تھا تاہم وہ محبت کا کچھ نہیں لگتا ہے ان کا اصل نام حکیم علیم الدین انصاری تھا نواب وزیر خان ان کا لقب تھا مسجد کی تعمیر 1635 ء میں مکمل ہوئی مسجد کی تکمیل کے چار سال بعد 1639 ء میں اُن کا انتقال ہوا مسجد کے قریب اُنہیں نے قدیم ترس کا حمام بھی تعمیر کروایا جس کو شاہی حمام کانام دیا گیا مغلوں کے زواں کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاہور کے تاریخی عمارتوں کا زوال شروع ہوا انگریزوں کے آنے کے بعد اس طرح کے قدیم عمارتیں بازاروں کی توسیع میں سکڑنے لگیں مسجد وزیرخان کا 800 مربع گز پر محیط احاطہ سکڑ کر 1991 ء میں محض 500 مربع گز رہ گیا ارد گرد کا نین بن گئیں مسجد کے سامنے بہت بڑ امیدان تھا جس کو مسجد چوک کہتے تھے یہاں قوالیاں ہوتی تھیں اس کوختم کر دیا گیا مسجد اونچے چبوترے پر تعمیر ہوئی تھیں آس پاس کی تجا و زات نے مسجد کو چھپا دیا چبوتر اغائب کر دیا گیا 1991 ء میں والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی قائم ہوئی اس اتھارٹی نے یو نیسکوسے رابطہ کیا حصار شہر کے اندر واقع تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لئے منصوبہ بند ی کی گئی ان عمارات میں مسجد وزیرخان اور شاہی حمام کی طرف بھی توجہ دی گئی یونیسکو نے عالمی سطح کی ماہرین کاتعاؤن حاصل کیا عالمی سطح پر تاریخی ورثہ کے تحفظ میں مہارت رکھنے والی فرموں اور تنظیموں کی خدمات حاصل کی گئیں اس طرح عالمی مقابلے کے بعد مسجد وزیر خان اور شاہی حمام کو دوبارہ اصلی حالت پر لانے کا کام آغا خان ٹرسٹ فار کلچر کودیا گیا مگر یہ ٹھیکہ نہیں ہے کیونکہ نازک کام ہے اس کام کا نہ ریٹ مقر ر کیا جاسکتا ہے نہ اس کے لئے ٹائم فریم دیا جاسکتا ہے قدیم طرز کا جو گار ا تیا ر ہوتا ہے وہ ضرورت سے زیادہ وقت لیتا ہے قدیم دیواروں کو ایسی حالات میں رکھ کر عمارات کو گر نے سے بچا نے کے لئے ستون کا نظم استور کرنا وقت شوق جذبہ اور ہنر کا تقاضا کرتا ہے قدیم طرز کی چھتوں کو محفوظ کر نے کے لئے بھی اسی طرح کے تعمیراتی ہنر کی ضرورت ہے قدیم طرز کے گنبد اور مینار بھی آسانی سے محفوظ نہیں کئے جاتے ان کو گر ائے بغیر تحفظ دینا ایک الگ ہنر اور آرٹ ہے دیوار پر 10x 8 فٹ کا نقش و نگار یا ڈرائینگ ہے اوپر سے جگہ جگہ اکھڑ کر ختم ہونے کے قریب ہے اس کو دوبارہ 10 اصلی حالت پر لانے میں دوسال عرصہ لگتا ہے آپ قدیم طرز کا الگ استعمال کر ینگے قدیم طرز کا پر انا گارا لے آئینگے آپ کاجو کا ریگر ہے وہ پھونک پھونک کر قدم رکھے گا اُ س کو کام ختم کر نے کی جلدی نہیں ہوگی کام کو 100 فیصد درست کر نے پر اُس کی توجہ ہوگی 1991 سے 2005 ء تک لاہور کے تاریخی ورثے کا جائر ہ لیا گیا 2005 ء میں کام شروع کیا گیا اس کام کے لئے والڈ سٹی آف لاہور کے نام سے اتھارٹی قائم کی گئی تھی اس اتھارٹی کو صوبائی حکومت نے فنڈ جاری کر دئیے بین لاقوامی تنظیموں اور عالمی حکومتوں سے رجوع کیا گیا ناروے کی رائل ایمپسی نے مالی تعاؤن کیا یو نیسکو نے ٹیکنیکل سپورٹ دیا آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے مسجد وزیر خان کی بحالی کے کام کو انجام دینے پر رضا مندی دکھائی اس سے پہلے ان لوگوں نے بھارتی حکومت کی مدد کرتے ہوئے مقبرہ ہما یوں کی بحالی کا کام مکمل کر کے عالمی ایوارڈ حاصل کیا تھا مسجد وزیرخان کے کا م کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا پہلا حصہ مسجد کے احاطے کی بحالی اور احاطے سے ملحق شاہی حمام کی بحالی کا کام تھا دوسرا حصہ مسجد کے اندر بحالی کا کام قرار پا یا پہلے حصے کے لئے پنجاب حکومت نے مسجد وزیرخان کے احاطے میں تجا وزات کو ختم کرکے زمین واگذ ار کرائی دکانوں کو مسمار کر کے احاطے کوخالی کیا شاہی حمام کے اردگرد تجاوزات کو ختم کروایا اور زمین کا قبضہ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کودید یا 2010 ء میں مسجد وزیرخان کے احاطے پر کام شروع ہوا تہہ خانوں سے بنیادوں کواُٹھا یا گیا کنکریٹ کے ستوں کھڑے کئے گئے حجروں کی بحالی کا کام ہوا وزیرخان چوک کے گرد دیوار تعمیر کی گئی چوک کی فرش ڈال کر مسجد کو چبوتر ہ سیڑھیوں کے ذریعے بحال کیا گیا مسجدوزیر خان چوک میں پروگراموں اور قوالیوں کے لئے ایک پلیٹ فارم تعمیر کر کے جنوبی کو نے پرسٹیج بنا یا گیا 2013 ء میں شاہی حمام پر کام کا آغاز ہوا تو حمام کے احاطے میں سطح زمین سے 20 فٹ نیچے آثار قدیمہ کی دریافت ہوئی کھلو نے ، مٹکے ، زیورات ہتھیار وغیرہ برآمد ہوئے یہ نیا کام تھا اس کو سیلقے سے انجام دے کر نوادارت کے لئے الگ شعبہ شاہی حمام کے اندر قائم کیا گیا توسیع شہر کی وجہ سے حمام میں پانی لانے اور اس کی نکاسی کے راستے نہ ملے اس لئے حمام کے گرم اور ٹھنڈے پانی کے خشک حوض بحا ل کے لئے ، حمام میں کپڑے بدلنے کے حجرے ، استراحت اورغسل کے لئے مخصوص جگہوں کو بحالی کیا گیا سیاحوں کے لئے لوہے کے فٹ پا تھ ، گریل ،اور زینے تیار کئے گئے تاکہ مٹی کا فرش محفوظ رہے 2015 ء میں حمام کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا اب مسجد وزیرخان کے اندر کام ہورہا ہے اور یہ بہت نازک کام ہے مسجد وزیرخان کی اصل خوبصورتی اس کی دیواروں پر کاشی کاری ہے بیل بوٹے اور فریسکو کا بیحد نازک کام ہے اس کے رنگ جہاں جہاں درست حالت میں ہے وہ 1635 ء کی طرح چمک دے رہے ہیں جہاں سے اس کا کوئی ٹکڑا ضائع ہوا ہے یا اکھڑ گیا ہے اس کو پہلے کی طرح اصلی حالت میں بحا ل کرنا ہے اور یہ اتنا سہل یا آسان کام نہیں ہے انجینئر شاکر اللہ نے اس مشکل اور تھکادینے والے کام کا بیڑا اُٹھا یا ہوا ہے ان کے ہمراہ کنسلٹنٹس اور کا ریگرون کی ٹیم ہے عبدالرحمن ناصر فنا نسنر کو دیکھ رہے ہیں انجینئر وجاہت ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں محمد حسن اور میر صوات کے ہمراہ مسجد وزیرخان اور شاہی حمام کی بحالی کا کام دیکھ کر جی خوش ہوا جس پہلو نے متاثر کیا وہ پنجاب حکومت کی پالیسی ہے نیا وزیراعلیٰ آکر جانے والے کے کام کو جاری رکھتا ہے بیوروکریسی کی تبدیلی سے کام پر فرق نہیں پڑا ہر حاکم ، ہر وزیر اور ہر افسر جانے والے کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا ،بلکہ جانے والے سے زیادہ دلچسپی دکھاتا ہے خیبر پختونخوا کی صورتحال اس کے برعکس ہے اس لئے یہاں تاریخی ورثے کے تحفظ کا کام اگر کسی نے شروع کیا تو سال ڈیڑھ سال بعد اس بند کر دیا جاتا ہے
ہز اروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے