تحریر :محمد شراف الدین فریاد
گزشتہ روزگورنرگلگت بلتستان میر غضنفر علی خان نے محکمہ اطلاعات سمیت دیگر مزید نئے محکموں کی باضابطہ منظوری دیدی ہے ۔ جن میں اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ ، سوشل ویلفئیر ، پاپولیشن ویلفیئر ، ویمن ڈویلپمنٹ، ویمن و چائلڈ رائٹس اور یوتھ افیئرز کے محکمے شامل ہیں۔یوں تو یہ ادارے عرصہ دراز سے عارضی بنیادوں پر قائم تھے ۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان صاحب کی مدبرانہ پالیسی کہیں یا پھر ان کی محنت اور کاوشوں کا ثمر قرار دیا جائے کہ گورنر صاحب نے صوبائی حکومت کی سفارشات کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر ان اداروں کے قیام کی باضابطہ منظوری دیدی ۔ ان محکموں کو گلگت بلتستان رول آف بزنس 2009میں ترمیم کے بعد باقاعدہ شامل کیا گیا ہے گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی خان صاحب کا کہنا ہے کہ نئے محکموں کو شامل کرنے کا مقصد عوام کو وسائل اور سہولیات فراہم کرنا ہے انہوں نے محکمہ اطلاعات کا خصوصی ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کی تخلیق سے جی بی کے صحافیوں سمیت دیگر تمام عوام کی مشکلات و مسائل پر قابو پالیا جائیگا۔
قارئین کرام! گلگت بلتستان کی صحافی برادری گورنر صاحب کی اس مہربانی پر نہ صرف خوش نظر آرہی ہے بلکہ ان میں امید کی ایک نئی کرن بھی پیدا ہوگئی ہے۔الحمداللہ گلگت بلتستان میں حافظ حفیظ الرحمن نے بحیثیت وزیراعلیٰ ان دوسالوں میں اپنی مدبرانہ اور عوام دوست پالیسیوں کو مرترب کرتے ہوئے جو اقدامات اٹھائے اس کا موازنہ اگر سابقہ ادوار کے حکمرانوں کے پانچ ، پانچ سالوں سے کیا جائے تو ہزار درجہ کی بہتری نظر آتی ہے ۔بالخصوص تعلیم ، صحت اور ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں وزیراعلیٰ صاحب نے کمال کے اقدامات اٹھائے ہیں جن میں حکومت کے اس اقدام کو عوام سب سے زیادہ سرا رہے ہیں کہ آج علاقہ بھر کے سرکاری سکولوں میں میٹرک تک تعلیم اور مفت کتابیں فراہم کرنے سے غریب گھرانے کے اس بچے نے بھی سکول کارخ کرلیا ہے جن کے والدین اس بچے کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے تعلیم سے محروم تھا ۔ وہ غریب لوگ جو بیماری کی صورت میں علاج کرانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے آج ان کے پاس صحت حفاظت کارڈز پہنچ گئے اور ان کو مفت علاج کی سہولیات میسر ہورہی ہیں اور ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں ہمارا علاقہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا ہے ۔ سی پیک کے منصوبے جب شروع ہونگے تو ترقی کے اس عمل میں مزید تیزی آئے گی ۔ محکمہ اطلاعات کا مستقل قیام گلگت بلتستان کے صحافیوں بالخصوص حرمت قلم کو محفوظ بنانے کے خواہشمند افراد کا دیرینہ خواب تھا۔
اینٹی کرپشن ، سوشل و پاپولیشن ویلفیئر، ویمن ڈویلپمنٹ ،چائلڈ و ویمن رائٹس کے محکمے ہو یا یوتھ افیئرز کا محکمہ ان تمام کے مسئلہ مسائل کا اطلاعات کے شعبے کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ جہاں ہمارے معاشرے کے دوسرے افراد کے مسائل ہوتے ہیں وہاں صحافی برادری بھی بے شمار مسائل کے گرداب میں پھنس چکے ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ جن پر دوسرے افراد کے مسائل کی نشاندہی کرنے کی زمہ داری عائد ہو اگر وہ خود بے شمار مسائل کے گرداب میں پھنس رہی ہوں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔۔؟
اب امید پیدا ہوگئی ہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے زریعے سے سرکاری محکمہ جات کی سخت نگرانی ممکن ہوگی ماضی میں رشوت کے عوض پر ایک ان پڑھ شخص کو بھی ٹیچر کی پوسٹ پر بھرتی کیا گیا تھا کم از کم ایسی مثالیں صرف ماضی کا حصہ ہی رہیں گی اور اینٹی کرپشن کا نظریہ مضبوط ہوگا۔ خواتین اور بچوں کے حقوق کے محکمہ جات کے ذریعے سے ان کے بنیادی حقوق پامال نہیں ہونگے ۔ سوشل ویلفیئر اور ویمن ڈویلپمنٹ کے محکمہ جات اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے خدمات انجام دینگے ۔ امور نوجوانان کا محکمہ نوجوانوں میں مثبت سوچ پیدا کرنے سمیت ان کے ذریعے ایک صحت مند معاشرے کے قیام میں فعال کردار ادا کریگا۔
اب ہم وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن صاحب سے یہ امید رکھتے ہیں کہ مذکورہ نئے محکمہ جات کے ذمہ دار ان کے چناؤ میں وہ اپنی ذمہ داری کا بھی احساس کریں گے ۔ نیا ادارہ بنانا تو آسان ہے مگر اس ادارے کو فعال وکامیاب اور عوام کیلئے سود مند بنانا سب سے زیادہ مشکل کام ہوتاہے ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ صحافت کے شعبہ سے ہی وابستہ جن کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔حرمت قلم کی پاسداری جانتا ہو اور بلیک میلنگ جیسی لعنت سے دور ، اپنی اور پوری قوم کی ساکھ کا خیال رکھتا ہو جیسے ایماندار و قابل شخص کو اس کی ذمہ داری دی جائے اور اس کی ٹیم میں شامل افراد بھی ایسی ہی صفات رکھتے ہوں ۔ اسی طرح دیگر محکمہ جات کی ذمہ داری بھی ایسے ہی افراد کو سپرد ہونی چاہئے جو ان شعبوں میں تجربہ ،مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ اچھی شہرت کے حامل ہوں۔ کیونکہ اچھے برے ہر معاشرے میں ہوتے ہیں کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتاہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں جس کام میں مہارت دی ہے اور اسی کام کو نبھانے کی ذمہ داری ملی ہے تو کل قیامت کے روز انہیں اسی کام اور ذمہ داری سے متعلق حساب بھی دینا ہے ۔ اور کئی ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مہارت تو رکھتے ہیں مگر اپنی ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور وہ اپنے منصب کو صرف اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق پیسہ بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں خواہ اس میں پوری قوم کا بیڑا غرق کیوں نہ ہو۔ صحافت کا شعبہ حساس شعبہ بھی ہوتا ہے اس شعبے کو معاشرے کا آئینہ بھی کہا جاتا ہے جس میں بلیک میلنگ یا پھر کمزور کو زیر کرنے جیسی برائیاں جنم لیں تو پھر پورا معاشرہ بگڑجاتا ہے ۔ الحمداللہ گلگت بلتستان میں صحافت کی ذمہ داریوں کو سمجھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اگر ہماری حکومت بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ کو فالو کرے تو یہ شعبہ انقلابی تبدیلیاں رونما کرسکتا ہے ۔