بلاگز

سیاسی معاشرہ اور میڈیا 

تحریر احسان علی رومی

۔ آج کل پورے ملک میں سیاست کا دور دورہ ہے۔ ہر گلی کوچہ، محلہ ، مسجد ، یونیورسٹی، کالج،سکول، میڈیا اور یہاں تک کی بزرگوں کی محفلیں بھی سیاست کی نزر ہو چکی ہیں ۔۔۔۔۔۔ الیکٹرونک میڈیا پر سر شام سے ہی سیاسی محفلیں سجتی ہیں جہاں پر سیاسی ادا کار اور گلوکار اپنےسیاسی کرتب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۔۔کروڑں سامین و ناظرین ان محفلوں سے لطف اُٹھاتے ہے اور اپنی بے پناہ علم میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

اس ملک کے ادبی و ثقافتی معاشرے سے سیاست کے علاوہ سب کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔۔ ایک گھر کے اندر ہی کئی سیاسی پارٹیاں بن چکی ہیں۔ ادبی گفتگو سے لیکر مذہبی گفتگو تک سب سیاسی ہو چکیں ہیں۔ ہماری قوم اب اتنی سیانی ہو چکی ہے کہ وہ کسی بھی گفتگو میں سے سیاست کو الگ کر سکتی ہے اور سیاسی بو سونگھ سکتی ہے۔

ترقیافتہ معاشروں میں بچوں کو وزیر اعظم اور صدر کا نام تک معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ان کو اس چیز سے واسطہ ہی نہیں ہوتا کہ ملک کا نظام کون اور کیسے چلا رہا ہے۔ اور ایک ہم ہے کہ پورے ملک کا نظام مل کر پوری قوم چلاتی ہے۔ اسکے نتیجے میں ایسے لیڈرز جنم لیتے ہیں جو ہمارے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے محافظ ہوتے ہیں۔

سب کچھ سمجھنےاور جاننے کے باوجود ملک کے بادشاہوں کے درمیان کھیلے جانے والی شطرنج کا محور ہمیشہ سے عوام ہی ہے۔ ہم کبھی فوج کو پسند نہیں کرتے اور جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہے کبھی جمہوریت کو لاکھ سنا کے فوج کے گن گاتےرہتے ہیں۔ گویا ہمیں کوئی پسند نہیں آتا پھر بھی جب وقت آتا ہے تو اگلے پانچ سالوں کے لیے کسی نہ کسی کواپنا رہبر اعلی اور قوم کے مستقبل کے معمار بنانے کے دھوکے سے اپنے گھروں کی دیواروں کو مختلف پوسٹرز سے آراستہ کرتے ہیں اور انتخاب کے شفاف پانی سے دھولے حکمرانوں کو تو لے آتے ہیں مگر یہی معاشرہ پھر اگلے پانچ سالوں تک خود کو اور جمہوریت کو کوستے رہتا ہیں۔

لسانی، مذہبی ، علاقائی اور نسلی تعصبات کے نتیجے میں جنم لینے والی جمہوریت کیونکر کامیاب ہو، جس کی جڑوں میں جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی کی نمی ہو جس کی بو تو ہم محسوس کرتے رہتے ہیں مگر اس سے منہ موڑ نہیں سکتے۔

منشور کے نام پر دیئے جانے والے دلاسوں اور جھوٹے وعدوں کے لپیٹ میں ہم خود ہی آجاتے ہیں اور اتنے خوش ہوتے ہیں جیسے سب کچھ عملاً ہو چکا ہو اور نفسیاتی طور پے اس خوشی کو اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرے کے نوجوان عمر بھر ان پڑھ لیڈران کے دروازوں پر ایک نوکری کے لیے دستک دیتے رہتے ہیں اور بھکاریوں کی طرح دربدر پھرتے رہتے ہیں۔

معاشرے کی بہتر نشونما کے لئے یہ لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں اور نئ نسل کو سیاسی بیماری سے دور رکھے، اور آج کل سوشل میڈیا کے نام سے پھیلنے والی بیماری سے اپنے بچوں کو دور رکھے۔

سوشل میڈیا نے معاشرے میں نہ صرف اندھی تقلید کا ایک نہ ختم ہونے والا رجحان کو فروغ دیا ہے بلکہ نزدیک کے کئی رشتوں کو کوسوں دور کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر دی جانے والی انفورمیشن کی حقیقت اور مستند ذرائع سے نا بلد ہم ایسی تقلید کرنے لگے ہیں جس کے نتائج مردان یونیورسٹی میں ہونے والا واقعہ ہے جو آگے چل کر معاشرے کےمختلف طبقوں میں دوریوں اور اختلافات کا باعث بن سکتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button