کالمز

فیصلہ محفوظ

قرآن عظیم الشان میں قصاص کے بارے کہا گیا ۔۔۔کہ اس میں تمہارے لئے زندگی ہے ۔۔۔۔کیونکہ جب ایک مجرم کو قرار واقع سزا نہ دی جائے تو یہ سزا پورے معاشرے میں پھیل جائے گی ۔۔قبیلہ بنو مخزوم کی ایک خاتون ایک جرم ثابت ہوا ۔۔اس کی سفارش فخرموجوداتﷺ کی خدمت میں لائی گئی۔۔فخر موجودات ﷺ نے قسم کہا کے فرمایا ۔۔کہ اگر میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی اس جرم کا ارتکاب کرتی تو محمدﷺ اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ۔۔۔مدینے میں زلزلہ آیا ۔۔فاروق اعظمؓنے زمین پہ پاؤں مار کر فرمایا ۔۔۔کیوں ہلتی ہو کیا تمہارے اوپر انصاف نہیں ہو رہا ۔۔ہم الحمداللہ اس امت کے پیروکارہیں ہمیں اس بات پر فخر ہے ۔۔ہم انصاف کے لئے مشہور ہیں ۔۔انصاف ہماری پہچان ہے ۔۔عدل فاروقیؓ دنیا کے لئے مثال ہے ۔۔یہ ہماری روایت ہے کہ ہم سزا پا کر مطمئین ہوتے ہیں ۔۔انصاف کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔۔دنیا میں جتنی قومیں ترقی کر چکی ہیں اسی انصاف کے بل بوتے پر ۔۔۔دوسری جنگ عظیم میں چرچل کو رپورٹ دی گئی کہ ۔۔ہماری فوج ہر محاذپہ دشمن سے شکست کھا رہی ہے ۔۔اس نے حکم دیا کہ جاؤ دیکھو کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی عمل درست طریقے سے انجام پا رہا ہے اور عدالتوں میں انصاف ہو رہا ہے ۔۔اگر یہ دو ادارے درست کام کر رہے ہیں تو ہمیں دشمن سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔۔۔ہمارے ہاں سب کچھ الٹا کیوں ہے ؟۔۔بڑے ویسے بھی بڑے ہیں ہم نے کبھی کسی کے احترام میں کوتاہی نہیں کی ۔۔سب ہمارے لئے قابل احترام ہیں ۔۔ہم نے کبھی کسی کو آقا ماننے سے کترایا نہیں ۔۔شکوہ کرنا اپنی جگہ لیکن ہم نے کسی سے نفرت نہیں کی ۔۔اب بڑوں میں جو کھنچا تانی ہوتی ہے ۔۔تو ہم پر گران گذر تا ہے ۔۔ہم پہ شاق گزرتا ہے ۔۔کہا جاتا ہے کہ کسی بڑے نے اس غریب ملک کی دولت لٹا کر اپنے چھپکے سے کارخانے لگائے ۔۔کسی نے اس کے پیسے چرا کر باہر ملک لے جاکر بینک میں رکھا ہے ۔۔ایک ایسا ملک جس کا ایک با شندہ ایک وقت کی روٹی کو ترستا ہو ۔۔اس کے پیسے ہتیانا ۔۔آخر یہ کس طرح سے مانی جائے ۔۔اگرواقع ایسا ہے تو ان لوگوں کو کونسا نام دیا جائے ۔۔عام لوگ اس کو اپنا شامت اعمال کہتے ہیں اگر حکمران امین نہ ہوں تو یہ رعایا کے اعمال کا نتیجہ ہیں ۔۔ہم یوں الزامات سنتے آئے ہیں اور ان کو بڑوں کے معا ملات کہتے آئے ہیں ۔۔ہم اپنے ایک وقت کی روٹی کو ترسنے والے ایسی باتوں پہ وقت ضائع کیوں کریں۔بس خدا انصاف دے ۔۔ایک مشہور گیت کے بول یوں ہیں ۔

یہ پانی بہتے بہتے کہہ رہا ہے
غریبوں کا پسینہ بہہ رہا ہے

پانی سچ کہتا ہوگا ۔۔یہ ان لوگوں کی کمائی ہے ۔جو جاڑوں اور تپتی گرمیوں میں کھیتوں اور کارخانوں میں ہوتے ہیں ۔۔جو راج مزدور ہیں۔جو کمہار نانبائی ہیں ۔۔جو لوہار موچی ہیں ۔۔جو ترکھان مستری ہیں ۔۔اور خون کے یہ قطرے چرائے جاتے ہیں ۔۔ہم کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کریں ۔۔ہم کس کو دھائی دیں ۔۔ہم اپنے چولہے کے غم میں ہیں ۔۔ہم اپنے آپ کو کھو تے جاتے ہیں ۔۔وہ اپنے آپ کو پاتے جاتے ہیں ۔۔کیا کسی حکمران میں یہ جرائت ہے کہ غریبوں سے کہہ دے ’’یہ تمہارے پیسے ہیں ‘‘جس کے ہاں ہفت خوان سجا ہو وہ روکھی سوکھی کو نہیں سوچتا ۔۔جو دو دن کی د نیا کو جنت بنانے میں مصروف ہو ۔۔ ان کو گلہ نہیں وہ غریبوں کی فکر کیونکر کرے ۔۔ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔۔خدا عادل بادشاہ ہے اگر کہنے والے واقع جھوٹ کہتے ہیں تو ان کا انجام برُاہو ۔۔۔اگر سچ کہتے ہیں تو سچائی معیار ہے ۔۔ہم سلام پیش کرتے ہیں ۔۔لیکن عدالت کا بلا ہو ۔۔کہ ’’فیصلہ محفوظ ‘‘ ہوتا ہے ۔۔اگر یہ محض الزام ہے تو کیوں جلد لوگوں کو سرخرو نہیں کرتے ۔۔بندوں کے بنائے ہوئے قوانیں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔فیصلے محفوظ ہوتے ہیں نتیجے کوئی نہیں ہوتے ۔۔ہم اگرشرعی نظام کے اندر ہوتے تو یہ سب کچھ نہ ہوتا ۔۔ٖفخر موجوداتﷺ نے مکمل ضابطہ حیات لے کے تشریف لائے ۔۔ہماری بدبختی کو دیکھو کہ مغرب تھوڑی سی سچائی دیکھاتی ہے تو ہم برملا کہتے ہیں کہ مغرب کی عدالتوں میں سچ بولنا ہوتا ہے ۔۔وہاں پر جھوٹ بول کربچ نہیں سکتے ۔۔۔۔ قرآن نے کہا’’تم اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حلانکہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو ‘‘کتاب اللہ میں سچائی کے سیوا اور کیا ہے ۔۔۔کاش ہماری عدالتوں میں کتاب اللہ رکھی ہوئی ہوتی اور سارے فیصلے اس کے مطابق ہوتے تو ’’محفوظ ‘‘ کیوں ہوتے ۔اللہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے ۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button