کالمز

توہین مذہب کے مقتولین کا دفاع اور نظام عدل

تحریر: فدا حسین

ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کویہ عنوان پڑھ کر عجیب لگے کہ میں کیوں کر توہین مذہب کے مقتولیں کا دفاع کر رہا ہوں لیکن جب آگے پڑھیں گے تو کالم کے مندرجات عنوان سے مختلف پا کر پر انہیں حیرت بھی ضرور ہوگی ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارئے ملک میں توہین مذہب  یا توہین رسالت کے نام پر لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ برائے 2016کے مطابق1987 سے 2016توہین مذہب کے الزام میں قتل ہونے والوں کی تعداد 62ہے جو رواں سال میں مشال خان اور سیالکوٹ میں  قتل ہونے والے لوگوں کو شامل کرئے تو یہ تعداد64بنتی ہے۔یہاں پر جملہ معترضہ تو طور پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ” سماجی کارکنوں ”کو مشال خان کے قتل پر تو بڑا افسوس ہوا مگر سیالکوٹ میں ہونے والا قتل کی ان کی نظر میںشاید اتنی اہمیت نہیں تھی فرق صاف ظاہر ہے کہ مشال خان کو مردوں کے ایک ہجوم نے قتل کیا تھا جبکہ سیالکوٹ کے مقتول کا خون دو بہنوں کے حصہ میں آیا تھا حالانکہ قتل قتل ہوتا ہے خواہ اس قبیح فعل کو مرد انجام دے یا عورت ۔ جب بھی توہین مذہب کے نام پر کوئی قتل ہوتا ہے تو احتجاج کرنے والے اور کالم نگار حضرات ، یہاں تک بعض اوقات وکالت کے شعبے سے منسلک افراد بھی مقتولیں کا دفاع انہیں بے گناہ ثابت ثابت کرتے ہوئے کرتے  ہیں، ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ لاشعوری طور پر وہ ان قاتلوں کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں انفرادی یا ہجوم کے ہاتھوں کسی شخص کے قتل کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرنی چاہیے بلکہ ہجوم کے ہاتھوں سزا کی باقاعدہ روک تھام کیلئے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ایسا صرف توہین مذہب یا توہین رسالت کے معاملے میں نہیں بلکہ تمام قسم کی جرائم کیلئے ہونا چاہیے مثال کے طور پر کوئی خاتون بازار میں یہ کہ کر چلانا شروع کردیتی ہے کہ فلان شخص نے مجھے چھیڑا ہے اس پر پورا بازار جمع ہو جائے گا اور اس خاتون کے بتائے ہوئے شخص کی پٹائی کر دے گا ممکن ہے کہ اس شخص کا اس جرم سے کوئی تعلق ہی نہ ہواور اسی طرح کوئی چور پکڑا جائے تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی حشر کیا جاتا ہے لہذا جب ہم  اپنے سماج میں ہونے والے اس طرح کے قتل کی بنیادی وجوہات پر غور کریں تو انگلی ہمیشہ ہمارئے نظام عدل یا عدالتی نظام پر ہی اٹھتی ہے کیونکہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہی کا مترادف خیال کیا جاتا ہے اس فارمولے کو زہن میں رکھیں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو عدالتی نظام سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ اس لئے یا تو لوگ عدالتوں سے باہر جرگے وغیرہ کے ذریعے اپنے فیصلے کرتے ہیں یا قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور خاص کر توہین مذہب یا توہین رسالت جیسے معاملات میں لوگ عدالتوں میں جانے کے بجائے قانون ہاتھ میں لینے کو ہی ترجیح دیتے ہیں جب ہم ایسے لوگوں کے ہم خیال لوگوں سے بات کرتے ہیں تو وہ ہم سے پوچھتے ہیں ذرا ہمیں یہ تو بتا دیں کہ ہماری عدالتوں سے آج تک کس کو انصاف (بروقت) ملا ہے  ہمارے پاس ان کے اس سوال کا مناسب جواب نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔

 اس لئے موجودہ حالات کے پیش نظر ہم یہ قطعا نہیں کہہ سکتے کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر لوگوں کو توہین مذہب یا توہین رسالت کی کھلی چھٹی دی جائے مگراس ضمن میںچند سوالات جو زہن میں ابھرتے ہیں وہ قارئیں کی نظر کرنا چاہتاہوں پہلا سوال یہ ہے اس بات کا فیصلہ کون کرئے گا کہ واقعتا اس شخص نے توہین کی ہے یا نہیں ؟دوسرا اگر اس پر جرم ثابت بھی ہو جائے تو اسے سزا دینے کا اختیار کسی ہجوم کو یا کسی فرد کو حاصل ہے یا ریاست کی زمہ داری ہوگی؟ کیا اس قانون کے غلط استعمال کرنے والوں کیلئے سزا کا قانون بنانا اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا یہ بھی اسلام سے روگردانی کے مترادف ٹھہرایا جائے گا؟ کیونکہ قرآن کا حکم ہے کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کے آئے تو اس کی خوب چھان پھٹک کیا کرو اب ہمارئے پاس اس وقت تو کوئی ایسا آلہ بھی نہیں جس سے ہم یہ جان سکے کو کون فاسق ہے اور کو ن زاہدو متقی ؟کیا ہمارا عدالتی نظام تمام لوگوں کو بلاتفریق انصاف مہیا کر رہا ہے؟ تو جواب یقینا نفی میں ہوگا کیا یہ دورست نہیں کہ عدالت سے انصاف لینے کیلئے لوگوں کو اپنی پوری جائداد او پر لگانی پڑتی ہے ۔سلمان تاثیر کے قتل موجب بننے والی پریس کانفرنس جو اس نے عدالت سے سزایافتہ آسیہ بی بی کے ساتھ کی تھی جس میں ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا عدالیہ غلط فیصلہ کر رہی ہے تو کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت کے فیصلوں پر جانا نہیں چاہتا ہم انسانیت کی بنیاد پر اس سزا کو معاف کریں گے ۔کیا یہ عدالیہ پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں تھا؟اس مطلب بھی نہیں کہ میں سلمان تاثرکے قتل کو جائز سمجھتا ہوا ایسا ہرگزنہیں   حالانکہ صدر مملکت کے پاس دیگر سنگین جرائم جیسے دہشت گردی ، ریاست کے خلاف بغاوت وغیرہ کی سزا معاف کرنے کا اختیار نہیں اسی طرح توہین مذہب کے مجرم کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا چاہیے کیونکہ اس کا تعلق لاکھوں انسانوں کے جذبات سے ہوتا ہے کیونکہ مجھ جیسا گنہگار تریں انسان کے نزدیک بھی حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس کے نزدیک تما م انبیاء کا احترام واجب ہے اس لئے توہین مذہب کو معمولی جرم سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی تاہم اس طرح مقدمات کی سماعت میں انتہائی محتاط برتنی چاہیے کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا گروہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے کسی پر بھی توہین مذہب یا توہین رسالت کا غلط الزام لگا سکتا ہے اس لئے قانون سازی اس طرح ہونی چاہیے کہ ملزم پر الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں الزام لگانے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ کسی میں ٹھوس شواہد کے بغیر اس طرح الزام لگانے کی ہمیت نہ ہو۔اس سلسلے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2016 کی سالانہ رپورٹ کے اجرا کے موقع پر معروف سماجی کارکن ماروی سرمد سے بات کی تو انہوں نے الزام ثابت نہ کر سکنے والے شخص پر قذف کا قانون لاگو کرنے کی تجویز دی جو کہ ہماری دانست میں معقول تجویز ہے۔تاہم اتنا کافی نہیں بلکہ اس کیلئے عدالتوں کو نہ صرف اس طرح کے مقدمات بلکہ دیگر تمام مقدمات کو سرعت کے ساتھ نمٹنا چاہیے تاکہ لوگوں کا عدالیہ اعتماد بحال رہے اور لوگ قانون ہاتھ میں لینے بجائے عدالیہ ہاتھ کا مضبوط کرنے کاموجب بننے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button