تعلیمکالمز

میر کارواں زندہ باش۔۔ محکمہ تعلیم چترال

محمد جاوید حیات

وقت اگر ظالم نہیں نہ سہی ۔۔مگر یہ کسی کو معاف نہیں کرتا ۔۔اگر کوئی اس کے تقاضے نہ سمجھے تو اس کی رفتار کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا ۔۔اور اگر کوئی اس کی رفتار کے ساتھ سفر نہ کرے تو اتنا پیچھے رہ جاتا ہے کہ راستے ہی میں کہیں مٹ جاتا ہے اور اپنا نام و نشان کھودیتا ہے ۔۔آج سے صرف ایک قرن(چھتیس سال) سال پہلے ہی تعلیم کے جو تقاضے تھے۔۔وقت کی جو رفتار تھی۔ وہ آج نہیں ہے بلکہ وقت پر لگا کے اڑ رہا ہے ۔۔پل پل تقاضے بدل رہے ہیں ۔۔مناظربدل رہے ہیں ۔۔کاروان علم و عمل بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔۔اقدار بدلے ہیں ۔۔زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے ۔۔انسان نصف مشینی ہے ۔۔پرواز بلند ہے ۔۔برتری ہے ۔۔ترقی کی دوڑ ہے ۔۔دنیا کی قومیں ریس کورس میں اپنی پوری قوت سے اُتری ہیں ۔۔دن رات کام ہورہا ہے ۔راتوں رات نئی ٹیکنالوجی متعارف ہو رہی ہے ۔۔جو اس ٹیکنا لوجی سے متعارف نہیں وہ ان پڑھ تصور ہو تا ہے ۔۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک خداداد میں تعلیم کے ان تقاضوں میں تضاد ہے ۔۔حکومتی تعلیمی ادارے جو عام عوام اور غریبوں کو ’’ تعلیم یافتہ ‘‘ بنانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں ان میں اس ماحول کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔کیونکہ بڑے بڑوں کے لئے اور ادارے ہیں ۔۔ان میں جدید ماحول مہیا ہے ۔اب غریب کے لئے کون سوچے ۔۔ان حکومتی اداروں کے اندر جو تعلیمی ماحول ہے اس کی اصلاح ، اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بنانے اس کو جدید سہولیات مہیا کرنے ۔ان میں موجود اساتذہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دینے اور ان کی محنت کی نگرانی کا کون سوچے ۔۔اس بے توجہی اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان اداروں میں تعلیمی عمل کمزور ہے ۔۔پھر ان میں کوئی میرٹ نہیں ۔۔معیار اور مقدار اکھٹے ہیں ۔۔سونوں کو کندن بنانے کے لئے آگ میں ڈالنے کی اجازت نہیں ۔۔مگر ’’کندن ‘‘ کا تقاضا کیا جاتا ہے ۔۔پرائمری میں سہولیات اور سخت محنت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں تو یہ کمزوری برقرار رہے گی ۔۔حکومت کی این ٹی ایس کی بنیاد پہ بھرتیوں سے اُمید روشنی کی کرن بن گئی ہے کہ یہ نئے تعلیم یافتہ نوجوان بہتری لائیں گے لیکن ان کو بھی ہراسان کیا جاتا ہے کہیں پالیسی بدلنے ،کہیں شرائط میں تبدیلی۔ کہیں اور شوشے چھوڑے جاتے ہیں ۔۔بات سسٹم کی ہے اگر سسٹم شفاف اور مضبوط ہو گا تو کام ہو گا اگر سسٹم سست ہوگا تو خواب پورا نہیں ہوگا نہ کوئی پورا کر سکے گا ۔

ضلع چترال میں محکمہ تعلیم میں ایک نمایان تبدیلی کا احساس اس لئے ہو رہا ہے ۔۔کہ محکمے کے زمہ داراں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ ہمیں روایات کو توڑنا ہے ۔۔موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا ہے ۔۔ٹیکنالوجی کے اس جدید اور تیز دور میں ہمیں اپنے آپ کو اس دوڑ میں شامل کرنا ہے آج وہ پسماندگی نہیں کہ گھوڑے کی پیٹھ پہ اداروں کا دورہ کیا جاتا تھا ۔۔ارڈر مہینوں میں بھی اداروں میں نہیں پہنچ پاتا ۔۔اچھائی ،برائی ،محنت ،غفلت کا پتہ نہ چلتا ۔۔آج ائی ٹی کا دور ہے اور اس کے تقاضے ہیں ۔۔محکمہ تعلیم چترال نے صرف ایک سال کے عرصے میں چترال کے سرکاری اداروں ،ان کے اندر سرگرمیوں اور اساتذہ کی کاوشوں کو اُجاگر کرکے اس با ت کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ ۔۔۔
اوالعزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندر پھاڑتے ہیں کوہ سے دریا بہاتے ہیں

اس مہرے کا سہرا خاص کر ممتاز محمد وردگ صاحب کے سر سجتا ہے جو چترال میں ڈی ڈی اوبن کے آئے اور ایک سال سے کم عرصے میں ایک نمایاں تبدیلی کاا حساس دلایا ۔۔وردگ صاحب اور ان کا عملہ اتنا متحرک رہا کہ آج اس دور افتادہ اور دور دراز ضلعے کا کوئی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں کہ محکمہ تعلیم کا یہ زندہ دل آفیسر وہاں نہ پہنچا ہو ۔یہ اپنایت کا وژن ہے کہ یہ محکمہ متحرک ہے ۔۔آپ کا نگران آپ کی خبر گیری کرنے والا موجود ہے ۔۔آپ کا پرسان حال ہے ۔۔آپ قوم کے معمار ہیں ۔۔یہ حوصلہ ہی کاروان کو مضبوط کرتاہے ۔۔کام کا پتہ چلتا ہے محنت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔۔آج ضلع کے سارے سکولوں کی کا رکردگی میڈیا پہ ہے ۔۔ان کے اندر سرگرمیوں کا ریکارڈ سوشل میڈیا پہ ہے ۔۔سر گرمیوں کی حوصلہ فرسائی ہو رہی ہے ۔۔اساتذہ کی کاوشوں کو سراہا جا رہا ہے ۔۔آج اساتذہ کا تعارف ہے ۔۔ ان کی پہچان ہے ۔۔یہ وقت کے تقاضے ہیں ۔۔یہ کام پہلے بھی ہوتے تھے یہ عظیم اساتذہ خاموشی سے قوم کی تعمیر میں لگے ہوئے ہو تے ۔۔ان کو اشتہار بننے اور مشتہر ہونے کی فکر نہ تھی مگر آج کے دور کے تقاضے ایسے ہیں ۔۔آج خلوت کی جگہ جلوت کو دیکھا جاتا ہے اس لئے آج کے دور کے چکا چوند میں ان کی خدمات ماند پڑتی تھیں اب کی بار عیان ہو رہی ہیں ۔۔ اس سال پورے سال کے لئے ایکشن پلان دیا گیا۔۔ اس پہ عمل ہو رہا ہے ۔۔ سالانہ قومی تہواروں کو منانے کے لئے خصوصی اہتمام کیا گیا اس وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں کی ساکھ بڑھی ۔۔ سالانہ امتحانات میں اعلی کار کردگی دیکھانے والے بچوں کو انعامات دئے گئے ۔۔سکولوں کے اندر ہاوس سسٹم متعارف کرایا گیا جو آج سے سو سال پہلے ہارواڈ یونیورسٹی میں متعارف کرایا گیا تھا جس پہ مغرب بڑا فخر کرتا ہے ۔۔ دو بار داخلہ مہم چلائی گئی ۔۔اس سال سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کی افتتاح شاندار طریقے سے منایا گیا ۔۔اور پہلی دفعہ ضلع کے اعلی آفیسرز اس بات کو ماننے پہ مسرور و مجبور ہوگے کہ واقعی قوم کے معمار قوم کے نونہالوں کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں ۔۔یہ تبدیلیاں مسلسل جدو جہد سے ممکن ہوتی ہیں ۔۔میر کاروان کے دست راس ہونے کاروان کا حصہ بننے اور ہراول دستے میں شامل ہونے سے ممکن ہوتی ہیں ۔۔آج ایک عزم پروان چھڑرہا ہے ۔آج محکمہ تعلیم کا دفتر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان آفیسروں کی محنت سے چل رہا ہے ۔۔کسی میز پہ کوئی کا م رُکتا نہیں ۔کوئی مسئلہ لٹکتا نہیں ۔کسی کو شکوہ نہیں ۔بس ان کی محنت کی تشہیر چاہئیے تھا تشہیر ہو رہی ہے ۔اگر معمار کے دل میں تعمیر کا درد ہو تو تعمیر ممکن ہوتی ہے ۔۔ممتاز صاحب ایک پر عزم آفیسر ہیں ان کو اساتذہ کی محنت اور مقام کا اندازہ ہے ۔انشا اللہ سرکاری اداروں میں بہت جلد وہ تبدیلی آئے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button