کالمز

میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر

تحریر: فیض اللہ فراق

گلگت بلتستان پاک چین اقتصادی راہداری کا گیٹ وے ہے اور اس میگا منصوبے کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر بھی ،جس کی وجہ سے اس خطے کی اہمیت دنیا کیلئے مسلم ہے ۔چونکہ گلگت بلتستان گزشتہ ستر سالوں سے تنازعہ کشمیر کا فریق اور تیسری اکائی کی صورت میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت متنازعہ حیثیت کے حامل دنیا کا واحد خطہ ہے جس کی حیثیت کا تعین آج بھی تشنہ طلب ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نعروں سے گلگت بلتستان پر ہندوستان اور ان کے حواریوں کی نظریں مزید للچائی انداز میں اثر انداز ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں جو کہ حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ۔سی پیک چونکہ پاکستان کے معاشی استحکام اور دفاعی نکتہ نگاہ سے تاریخی منصوبہ ہے ،سی پیک کے بننے کے بعد ہندوستان دنیا میں تنہا ہو کر رہ جائے گا جبکہ پوری دنیا کی نظریں پاکستان کی اٹھتا ہوا معاشی بلاک کی طرف ہوں گی ،اس وجہ سے ہندوستان کی تازہ ترین حکمت عملی یہ ہے کہ وہ پاکستان پر مختلف نوعیت کے دباو ڈال کر خود کو سی پیک میں شامل کریں اور اس سلسلے میں بیک ڈور ڈپلومیسی کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے اور دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ وہ بلوچستان میں خفیہ سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں بدامنی کی فضا پیدا کر کے عدم استحکام کی صورت پیدا کریں جبکہ دوسری جانب گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو جواز بنا کر بین الاقوامی سطح پر سی پیک کیخلاف لابنگ میں تیزی لائے۔ ایسے حالات میں پاکستان کے مقتدر حلقوں کی کاونٹر اسٹرٹیجی واضح ہونا ناگزیر ہے۔

گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلی سمیت اعلی وفد ون بیلٹ ون روڈ (اوبور) بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہونے کیلئے چین رونہ ہوئے ۔وفد چینی و عالمی قیادت کے ساتھ سی پیک اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اہم معاہدات پر دستخط بھی کرے گا۔اس وفد میں بلوچستان کی نمائندگی تو شامل ہے مگر گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گلگت بلتستان سی پیک کا اہم جز ہے اور یہ منصوبہ گلگت بلتستان کو چیر کر اپنے تکمیل کو پہنچے گا اس کے علاوہ گلگت بلتستان عالمی سطح پر اپنی اہمیت کو منوا چکی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اپنی اہمیت سے گلگت بلتستان کے لوگ خود بے خبر ہیں، تو اس خطے کو سی پیک کے معاہدات سے دور رکھناسی پیک کے خلاف بننے والی ہندوستانی حکمت عملی کی حوصلہ افزائی لگتی ہے یا یوں ظاہر ہو رہا ہے کہ شاید ہندوستان کو بھی سی پیک میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اگر ہندوستان کو سی پیک میں شامل کیا گیا تو گلگت بلتستان سے اس اہم نوعیت کے منصوبے کے حوالے سے پوچھنا لازمی شرط نہیں ہوگی کیونکہ پھر ہندوستان گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو جواز بنانے کی بجائے مفادات کی ٹوکری میں اپنی بقا کیلئے جگہ تلاش کرنے میں لگ جائے گا۔

وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن چونکہ پہلے سے ہی کسی اہم سرکاری دورے پر اٹلی میں ہیں اس لئے وہ وزیراعظم کے ہمراہ چین نہیں جا سکے مگر مرکزی وفاقی قیادت کو چاہئے تھا کہ وہ گلگت بلتستان کابینہ کے کسی سینئر رکن کو وفد میں جگہ دیتے ۔چین میں ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں طے پانے والے معاہدے بہت اہمیت کے حامل ہیں جس میں گلگت بلتستان کی نمائندگی بہت ضروری تھی۔

گلگت بلتستان اس میگا منصوبے کا وارث ہے اور خطے کے باسیوں کو اس حوالے سے پہلے سے ہی تحفظات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی نوجوان نسل دن میں ہم سے ہزار سوال کرتی ہے اور محرومی کا درس عام ہے۔ ایسے میں مرکزی قیادت کے فیصلے گلگت بلتستان کی نوجوان نسل کی محروم آواز کو مزید توانا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

گلگت بلتستان کی مضبوطی ریاست کا استحکام ہے اور محرومیوں کا حل مستقبل کے مثبت اور خوشحال پاکستان کی ضمانت بھی ہے۔ ریاست کی ہندوستان کو رام کرنے والی پالیسی سمجھہ سے بالاتر ہے۔ ہندوستان نے ہر محاذ پر پاکستان کے مفادات کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے جبکہ گلگت بلتستان کے ہزاروں نوجوان اپنے خون سے وفا کی داستان لکھ چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہزار قربانیوں کے باوجود ملکی اداروں نے ہر دور میں گلگت بلتستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی ہے اور یہاں تک کہ اس خطے کے باسیوں کی عزت نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے جس سے محرومی کی دکان بند نہیں ہو گی، بلکہ یہ دکانداری مزید تقویت کے ساتھ آگے بڑھے گی ۔

گلگت بلتستان کے باسیوں کو جب تک اعتماد سازی اور مشاورت میں شامل نہیں کیا جائے گا تب تک سی پیک کی تعمیر ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بہتر ریاست کی اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے اعتماد سازی میں شامل کرے ۔گلگت بلتستان کی عوام کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ عزت نفس کے مجروح ہونے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔

وزیراعظم کے دورہ چین میں گلگت بلتستان کی عدم نمائندگی پر عوام میں شدید قسم کا غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا ازالہ ناگزیر ہے۔ سی پیک سے گلگت بلتستان کو ملنے والے مفادات کا تعین ہونا اور عوام تک اس کا شعور پہنچنا ضروری ہے ورنہ خدشات میں اضافہ ہوگا اور اندرون خانہ ایک منفی قسم کا محروم لاوا سرائیت کرجائے گا۔

میرے اندازے کے مطابق اس طرز کا لاوا پکنا شروع ہوا ہے جس کے پھٹنے سے پہلے اس پر قابو پانا ہم سب کی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ گلگت بلتستان کو ویسے تو پاکستان کے سر کا تاج کہا جاتا ہے لیکن یہ باتیں اب تک صرف کہنے کی حد تک ہیں۔ عملی طور پر گلگت بلتستان کے حوالے سے سیاسی ٹیبل پر کچے کان کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور معاملات سست روی کا شکار ہیں، جس سے خودکار محرومیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کو سی پیک سمیت تمام امور میں آن بورڈ لیا جائے تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے جبکہ دوسری جانب گلگت بلتستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہئے کی وہ تمام تر سیاسی و مسلکی اور علاقائی تفرقات سے بالاتر ہو کر ایک اجتماعی قومی مثبت سوچ پر مجتمع ہو جائے، کیونکہ میرے خیال میں یہ وقت چپ رہنے کا نہیں، بلکہ اپنے جائز حقوق کے دفاع کا ہے۔

کہیں کسی کی حمایت میں مارا جاوں گا
میں کم شناس مروت میں مارا جاوں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاوں گا

صاحبِ تحریر حکومت گلگت بلتستان کے ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے رہنما ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button