کالمز

عبد الحمید خان کی واپسی ریاستی اداروں کی بہت بڑی کا میابی

تحریر: فیض اللہ فراق

یہ 1997 کی بات ہے جب گلگت بلتستان کے ایک درجن کے قریب مرکز گریز افراد نے گلگت اتحاد چوک کے قریب گولڈن جوبلی کے بجائے بلیک جوبلی منانے نکلے ان میں نواز خان ناجی’ کے علاوہ عبد الحمید خان نامی شخص بھی شامل تھا۔ بلیک جوبلی منانے والوں کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا ان پر لاٹھی چارج کی گئی اور منتشر کیا گیا مگر چند افراد پر اس واقعے کے نتیجے میں مقدمات قائم ہوئے جن میں ایک عبد الحمید خان تھے۔عبد الحمید خان بالاورستان نیشنل فرنٹ کے رہنما تھے اور اس دور میں بی این ایف کے دو دھڑے نہیں تھے۔ بیرون ملک مقیم ایک کشمیری قوم پرست شوکت کشمیری کو جب اس بغاوت کا علم ہوا تو انہوں عبد الحمید کے ساتھ تعاون کیا انہیں راہداری فراہم کی اور اے ایچ خان خود ساختہ جلاوطنی کے رستے پر چل پڑا۔

یہ 1999 کی بات ہے جب عبد الحمید خان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں ٹریپ ہوا جس کا پہلے پہل انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوا۔ 1999 سے 2006 تک عبد الحمید خان نے بی این ایف پر جتنی بھی سرمایہ کاری کی اس وقت تحریک کے چئیرمین نواز خان ناجی تھے کیونکہ بی این ایف اس وقت تک دھڑوں میں منقسم نہیں ہوئی تھی 2005 اور 2006 کے وسط میں نواز خان ناجی صاحب نے انگلینڈ کا وزٹ کیا اور واپسی پر کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے حمید خان کو را کا ایجنٹ قرار دے کر بی این ایف کی رکنیت سے فارغ کیا جس کے بعد بی این ایف حمید گروپ وجود میں آیا اور زور و شور سے نوجوان اس تحریک سے وابستہ ہوئے چونکہ حمید خان کو روبرو کسی نے نہیں دیکھا تھا ان کی گلگت بلتستان کی محرومیوں پر اٹھائی جانے والی آواز نے مجھ سمیت ہزاروں طلبہ کو تحریک سے وابستہ کرنے پر مجبور کیا۔ بشمول گلگت بلتستان ملک بھر کے تمام صوبوں کے تعلیم اداروں میں بالاورستان نیشنل اسٹوڈنٹس کی یونٹس قائم ہوئی جس کی مالی اعانت خود حمید خان اٹھاتے تھے اور کہتے یہی تھے کہ ان کا بیرون ملک بزنس ہے جبکہ وہ بیلجیئم میں سیاسی پناہ لینے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ حمید خان ان دنوں طلبہ کے توجہ کا مرکز تھے اور مختلف سیمینارز میں وہ ٹیلی فونک خطاب بھی کیا کرتے تھے۔

اس دورانیے میں سب سے متاثر کن بات یہ تھی کہ حمید خان ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم گلگت بلتستان کے غریب طلبہ کی مالی مدد بھی کرتے رہے ہیں ان طلبہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ 2010 کے قریب مجھ سمیت سینکڑوں طلبہ بغیر کسی دباؤ کے بذریعہ تحقیق حمید خان کی پالیسیوں سے انحراف کرتے ہوئے ان کی جماعت کو خیر باد کیا اور مختلف وفاقی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئے اس دن کے بعد بالاورستان نیشنل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جڑیں کھوکھلی ہوگئیں اور چند ماہ میں آہستہ آہستہ یہ طلبہ تنظیم قصہ پارینہ بن گئی۔ نوجوانوں نے حمید خان کا ساتھ چھوڑ دیا اور گلگت بلتستان میں بی این ایف (حمید) کے 14 افراد کو اسلحہ سمیت 2016 میں گرفتار کئے گئے جنہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں دہشت گردی کی تربیت دی جا رہی تھی۔

حمید خان عیش و عشرت اور آسائش کے ساتھ بیرون ملک مقیم تھے انہیں گلگت بلتستان آنے کی کیا ضرورت تھی؟ گزشتہ مہینے جب حمید خان کی واپسی کی خبر ملی تو بڑی حیرت ہوئی جب تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ یہ حساس اداروں کی سالوں کی مشقت اور محنت کا نتیجہ ہے۔حمید خان کی واپسی اور خود کو ریاستی اداروں کے حوالے کرنا اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک ایسا آدمی جسے بھارتی خفیہ ایجنسی "را” کے چیف گلگت بلتستان میں بدامنی اور ایف ایم ریڈیو کے قیام کے ذریعے پاکستان دشمن بیانیہ کو اجاگر کرنے کا ٹاسک دے اسے ان دشمنوں کے صفوں سے نکال کر پاکستان کی صف میں کھڑا کرنا اداروں کی مہارت اور جانفشانی کا ثبوت ہے۔ حمید خان کو پاکستان لانا بھارتی خفیہ ایجنسی کی بدترین ناکامی ہے اور یہ بات بھی واضح ہوگی کہ بھارت پاکستانی معاملات میں مداخلت سے باز نہیں آیا ہے۔ کلبھوشن کے بعد حمید خان کی واپسی بھارت کے دوہرے چہرے کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی ہے۔

ریاست پاکستان کی یہ پالیسی کہ فراریوں اور ناراض افراد کو قومی دھارے میں شامل کرنا لائق تحسین اور قابل قدر اقدام ہے۔ اداروں کی اس مثبت پالیسی کی تائید کرتے ہوئے دشمن ایجنڈے کو مذید ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں حمید خان کے حوالے سے قومی میڈیا میں جاری بیان کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ گلگت بلتستان میں دشمنوں کے ایجنٹ بیٹھے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ محب وطن پاکستانی ہیں ملک کیلئے ان کی قربانیاں لازوال اور بے مثال ہیں حمید خان تو بیرون ملک مذید عیاشی کی زندگی گزار سکتے تھے مگر ان کا واپس آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھارتی ایجنڈے کو مذید گلگت بلتستان پر مسلط کرنا نہیں چاہتے تھے.

قابل غور بات یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کی جانب سے جس دور میں اربوں کی سرمایہ کاری گلگت بلتستان کی بدامنی پر کئی گئی اس مخصوص دور میں گلگت بلتستان ایشیا کا پرامن ترین خطہ قرار پانے کا اعزاز حاصل کر گیا اس سے صاف واضح ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی ایجنٹ نہیں ہے بعض افراد ناسمجھی میں دشمن طاقتوں کے ہاتھوں غیر ارادی استعمال ہو سکتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں واپسی کا رستہ فراہم کیا جائے کیونکہ وہ اپنے کئے پر ندامت اور پچھتاوے کے ساتھ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ہمیں قومی سطح پر ریاست اور ریاستی اداروں کی اس پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے جس پالیسی کے تحت حمید خان دشمن لائن سے کٹ کر پاکستان کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں ریاستی اداروں کی رعایت پر مبنی پالیسی بہت سارے مسائل کا حل ہے اور اس کے بہت جلد مثبت نتائج بھی آئیں گے۔گزشتہ دنوں نجی چینلوں پر حمید خان کے ساتھ 14 افراد کی گرفتاری ٹیکنیکل غلطی ہے کیونکہ یہ 14افراد کی گرفتاری ٹیکنیکل غلطی ہے کیونکہ یہ 14 افراد 2016 میں گرفتار ہوئے تھے اور اسی نیٹ ورک کے لوگ تھے یہی وجہ ہے کہ جب نیٹ ورک کا سربراہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں پر تائب ہو کر ریاست کے مہمان بنے تو پرانی خبر کی توسیع کی گئی ہے جس پر ہمیں معاملہ فہمی کے باوجود بے جا شور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button