کالمز

دیامر میں تعلیمی پسما ندگی اور نجی تعلیمی ادارے

تحریر۔اسلم چلاسی

ایک زمانہ تھا تعلیمی درسگاہیں بغیر درو دیوار کے ہوا کرتے تھے۔بلیک بورڈ ہوتا تھا نہ ہی فرنیچر ،، زمین پربیٹھ کر ایک دونی دو دو دونی چار کا پاڑہ ایک ایک گیارا ایک دو بارا گنتی اور لے دیکر اردو حروف تہجی زبر کرنے کی ریاضت ہوتی تھی۔ خوشخطی سے زیادہ کشتی کیلے لکڑی کی تختی بڑی کام کی شہ تھی۔ شام کو ہوم ورک کے نام پر دریا کے کنارے بیٹھ کر جو بھی جی میں آیا تختی پر اتار دی۔ کچھ طلبہ تو اتنے ڈیٹ ہوتے تھے کہ با ،،تا،، ثا ،،کی جگہ مختلف جانوروں کے حلیے بنا تے تھے۔ یہ تختی فرنیچر کے دکان سے دیار کے لکڑی کا بنواتے تھے۔ یہ بیک وقت تختی اور ہتھیار دونوں کا موں میں آتی تھی۔ حسب معمول چھٹی کے بعد روایتی دو گروپوں میں سر پھوڑ مشق کا آغاز ہوتا تھا دے مار ساڑھے چار لہو لہان۔ کچھ تختیاں تو اتنی مظبوط ہوا کرتی تھی کہ چھ چھ مہینوں تک بیس بیس مرتبہ سر پھوڑنے کے باوجود بھی مسلسل کام میں آتی تھی۔ صبح کے ٹا ئم ہوم ورک کے نام پر فضولیات اور شام کے ٹا ئم سر پھوڑنے کیلے اتنی بہترکوئی اور شے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

اساتذہ بھی ماشاء اللہ سے درسی کتابوں سے زیادہ اپنے بنائے گئے افکار پر توجہ دیتے تھے۔ بات بات پر گالم گلوچ تھپڑ چھڑیاں ڈنڈے حتی کہ کچھ اسا تزہ طلبہ پر پتھراؤ بھی کرتے تھے اس زمانے میں اساتزہ کے ہاتھوں کلائی مروڑ نا گردن دبا نا کان کے پردے پھوڑ دینا کوئی انہونی مسلہ نہیں تھا بلکہ یہ سب ہمارے سکول کے روز کا معمول تھا ظاہر ہے جیسا دیس ویسا بھیس جس طرح کے طلبہ تھے ویسے اساتزہ بھی تھے صبح دس بجے آئے تمام کلاسز کو کھلے میدان میں اکھٹا کیا سر پھوڑ مشق کا جرمانہ اصول کی سزاء و جزاء کا رونڈ مکمل کی کتاب کھول دی گڑ گڑ گڑ آگے دوڑ پیچھے چھوڑ سٹوڈنٹ کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون سا مشق ہے کہاں سے شروع ہوا اور کہاں پر ختم ہوگیا مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ اس دور کے اساتزہ خد پڑھنے آتے تھے یا سٹوڈنٹ کو پڑھا نے آتے تھے۔محکمہ تعلیم بھی برائے نام ہوا کرتا تھا سال میں ایک دفعہ سکول کا چکر لگاتے اور استاد کی مرغی کا شوربہ نوش فرماکر صرف اساتزہ کی اٹینڈس رجسٹر چک کی ٹھیک ٹھاک کی رپورٹ لکھ دی اور چلتے بنے ۔نتیجہ کے طور پر آج اس زمانے کی ننا ویں فیصد جنریشن ڈرائیور کنڈکٹر چرواھے مزدور ہیں تو کوئی قاتل بن کر معاشرے کیلے درد سر بنے ہوئے ہیں کوئی تو مقتول بن کر گزر گئے ۔میں نے چار سال اپنے گاؤں کے سکول میں وقت گزاری کی جب کسی ڈھنگ کے سکول میں ٹیسٹ دی تو معلوم ہوا کہ میرے زندگی کے ابتدائی چار سال بالکل ضائع ہو چکے تھے مجھے پھر ایک سے شروع کرنا پڑا ۔مگر آج کے اس جدید دور میں میں نظام تعلیم کو دیکھتا ہوں تو بد قسمتی سے سوائے انفرا سٹرکچر کے کہے بہتری دیکھنے کو نہیں ملتی سر کاری سکولوں میں وہی وقت گزاری ہے اور تنخواہ کے حصول تک اساتذہ کی محض حا ضری یقینی ہے اس کے برعکس پرایؤیٹ سکولوں میں معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی تربیت پر بھی بہت ہی توجہ دیا جاتا ہے دیامرمیں اس وقت ستائیس پرایؤیٹ سکول ہیں جن میں تقریباً ساڑھے چار ہزار طلبہ زیرے تعلیم ہیں جس میں فی میل کی تعداد حیران کن حد تک ہے حا لانکہ عام طور پر یہ تا ثر دیا جارہا ہے کہ دیامر کے لوگ فی میل تعلیم کے مخا لف ہیں جس کے بنیادی رکاوٹ علما ء مشائخ کو گردانا جاتا ہے مگر یہ تا ثر بالکل جھوٹ پر مبنی ہے نہ علماء فی میل تعلیم کے مخالف ہیں اور نہ عوام مخالف ہیں چونکہ بیت العلم کا پر نسپل ایک معروف عالم دین مولنا محمد دین ہے جس کے ادارے میں اس وقت میل فیمیل سٹوڈنٹ حصول علم کیلے سر گرداں ہیں جن میں علماء مشائخ سمیت تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے بچے بچیاں زیر تعلیم ہیں دیامر میں اگر فیمیل تعلیم پر اختلاف ہے تو صرف ما حول پر ہے مخلوط نظا م تعلیم کی مخالفت ہے اور ہونی بھی چا ہیے۔یہ ستائیس پرایؤیٹ تعلیمی ادارے نہ صرف معیاری تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ طلبہ کی دینی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ اس جھوٹ پر مبنی تاثر جو کہ فی میل تعلیم کی مخالفت کا بنا بنا یا ڈنڈورا پیٹنے کا بھی نفی کرتے ہیں جس سے صوبہ بھر میں آئے روز ان ہی پرائیویٹ سکولوں کے کاوشوں کی وجہ سے دیا مر کا امیج بہتر ہوتا جا رہا ہے مگر بد قسمتی سے محکمہ تعلیم ان پرایؤیٹ تعلیمی اداروں کی سر پرستی اور حوصلہ افزائی کیلے با لکل بھی تیار نہیں ہے مفت کتا بوں کے فرا ہمی سرکاری سکولوں کو جس تا خیر سے کی گئی اتنی ہی نا مکمل اور غیر زمہ داری کا مظا ہرہ کیا گیا کسی کو دو کتا بیں ملی ہیں تو چار نہیں ملی کسی کو ایک کتاب ملی ہے تو کسی نے دو دو سیٹ پر ہاتھ صا ف کیا ہے جن کو ملی ہیں اندر سے کئی باب غا ئب ہیں اول کا ورق آخر ی حصہ سے جڑا ہوا ہے خیر سر کاری کام ہے ایسا ہی ہوتا ہے مگر اس مفت کے کتابوں کی چکر میں پرائیویٹ سکولوں کا بیڑھ غرق کردیا گیا ہے جو پرایؤیٹ سکولیں سرکاری سلیبس پڑھاتے ہیں ان کو نہ مفت سرکاری کتا بیں ملی ا ور نہ ہی مارکیٹ میں بک سیلروں کے پاس کتا بیں دستیاب ہیں ایک پرایؤیٹ سکول کے پرنسپل نے اس حوالے سے ہمیں بتا یا کہ مارکیٹ میں کتا بیں دستیاب نہ ہو نے کی وجہ سے پرایؤیٹ سکول انتظامیہ اضافی کتا بیں حاصل کرنے والے سر کاری سکولوں کے طلبہ سے خرید رہے ہیں ایک طرف تمام طلبہ کو پوری کتا بیں نہیں ملتی ہیں دوسری طرف صوبا ئی حکو مت کے طرف سے فراہم کردہ کتا بیں فروخت بھی ہوتی ہے خیر یہ حکو مت کی مس منجمنٹ ہے اس پر تحقیقات ہونی چا ہیے ۔مگر پرائیویٹ سکولوں کے حوالے سے حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ان ستایئس پرائیویٹ سکولوں میں زیادہ تر تعداد نادار بچوں کی ہیں یا ایسے غریب بچے ہیں جن کے والدین بالکل بھی خرچہ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ ادارے بغیر فیس کے لور طبقہ کو معیاری تعلیم دینے کی بہر پور کوشش کر رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی این ،،جی،، او،،کوئی سرکاری ادارہ ان سکولوں کی سر پرستی یا تعاون کیلے تیار نہیں ہے جہاں سر کاری سکولوں کے طلبہ کو مفت کتابیں فراہم کی جارہی ہیں وہاں ان پرایؤیٹ سکول انتظامیہ کو بھی مفت کتا بیں دینی چا ہیے چو نکہ سرکاری سکولوں سے کئی گناہ زیادہ معیاری تعلیم یہی پرایؤیٹ ادارے دے رہے ہیں صوبا ئی حکومت اور خا ص کر فلاحی اداروں کو چا ہیے کہ نہ صرف دیامر بلکہ پورے گلگت بلتستان کے تمام پرایؤیٹ سکولوں کے طلبہ کو مفت کتا بیں فراہم کرنی چا ہیے چو نکہ یہ نجی تعلیمی ادارے سرکاری تعلیمی اداروں سے بہتر نتا ئج دے رہے ہیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button