کالمز

اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا معیار کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے؟

"جرمنی میں اساتذہ کی تنخواہ سب سے زیادہ ہے۔وہاں کے ڈاکٹرز، ججز، انجنئرز سمیت دیگر اہم پیشوں سے وابستہ افراد نے جب جرمنی کی چانسلرانجلا مرکل سے مطالبہ کیا کہ آپ ہماری تنخواہ اساتذہ کے برابر کریں تو چانسلر نے جواب دیا کہ میں آپ اور آپ کو پڑھانے والوں کا موازنہ کیسے کر اسکتی ہوں؟” یہ بات گذشتہ دنوں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں ” پاکستان میں اساتذہ کی تعلیم میں معیا ر کی ضمانت کے مسائل ” کے مو ضوع پر دو روزہ نیشنل کانفرنس سے اپنے خطاب میں پاکستان کے معروف ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر سی جے دوباش نے اپنے ایک فکر انگیزتحقیقی مقالے کے اختتامی نوٹ کے طور پر کہی تھی ۔

دنیا کی جو قومیں ترقی میں آگے ہیں انہوں نے سب سے پہلا اور بنیادی کام یہ کیا ہے کہ اپنی تمام تر توانائیاں تعلیم کے شعبے کی بہتری پر لگا دی ہے ۔ ان ممالک میں نہ صرف اس شعبے پر سب سے زیادہ سرمایہ لگا دیا گیاہے بلکہ اچھے تعلیمی ادارے بنا کر ان اداروں میں قابل اور ماہر لوگ بٹھا دئے گئے ہیں۔چونکہ تعلیم کے عمل میں بنیادی کردار استاد کا ہوتا ہے اس لئے انہوں نے اساتذہ بننے کے لئے اعلیٰ معیار بھی مقرر کر دئیے ہیں۔ ان معیار پر پورے اترنے والوں کو استاد کا درجہ دیا جا تا ہے اور استاد کاپیشہ سب سے معزز اور قابل عزت سمجھا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے ان معاشروں میں قابل ترین لوگ اس شعبے کا رخ کرتے ہیں۔ترقی یافتہ معاشروں کی ایسے بے شمار مثالیں اور واقعات ہیں جو ان معاشروں میں اساتذہ کی تکریم کا ثبوت ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے مطلوبہ نتائج اس لئے برآمد نہیں ہوتے ہیں کیونکہ یہاں تعلیم دینے والوں کے لئے معیار مقرر نہیں ہے۔

جو بات دنیا نے بہت پہلے محسوس کی تھی وہ پاکستان میں اکیسویں صدی کے دوسرے سال یعنی 2002 میں محسوس کی گئی اور ایک صدراتی حکم نامہ کے تحت ہائیر ایجو کیشن کمیشن کو ذمہ دار ی سونپی گئی کہ وہ ایک ایسی اتھارٹی یا کونسل کا قیام عمل میں لائے جس کے تحت ان تما م سرکاری وغیر سرکاری ا داروں کے معیار کا تعین کیا جاسکے جو اساتذہ کی تعلیم و تربیت پر کام کرتے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس حکم نامہ کی روشنی میں 30 اگست 2007 کونیشنل ایکریڈیشن کونسل فار ٹیچرز ایجو کیشن (نیکٹی) پاکستان کا قیام عمل میں لایا ۔ اس کے قیام سے ابتک اس ادارے نے 255 ایسے پروگرامز کو اپنے دائرہ کار میں لایا ہے جو پاکستان کے مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی طرف سے اساتذہ کی تعلیم کی غرض سے ترتیب دئیے گئے ہیں۔ رواں سال یہ ادارہ مزید 100 پروگرامز کو اپنے دائرہ کار میں لائے گا۔ اس کے باوجود پاکستان میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت کے لئے تیار کئے گئے متعدد پروگرامز تاحال اس ادارے کے دائرہ کار سے باہر ہیں ۔ کیونکہ اس وقت پاکستان میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت پر کام کرنے والے سرکاری وغیر سر کاری اداروں کی تعداد 475 ہے جن میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت کے کل 675 پروگرامز چلتے ہیں۔ جس قانون کے تحت اس ادارے کا قیام عمل میں آیا ہے اس میں یہ بات واضع طور پر لکھی گئی ہے کہ پاکستان میں ہر وہ سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ جو ا ساتذہ کی تعلیم و تر بیت پر کام کرتا ہے وہ اس بات کا پابند ہوگا کہ وہ اپنے تیار کئے گئے پروگرامز یا کورسیس کی نہ صرف پیشگی منظوری مذکورہ ادارے سے لے گا بلکہ اس کی ایویلویشن بھی اس ادارے سے کرائے گا تاکہ ان کے معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔ مگر تا حال متعدد ادارے نیکٹی کے دائرہ کار میں نہیں آئے ہیں۔جبکہ نیکٹی ا پنے کم وسائل کے باوجود اپنا کام تندہی سے کر رہا ہے اور ان تمام پروگرامز کو اپنے دائرہ کار میں لانے کے لئے کو شاں ہے جو ابھی تک نیکٹی کے ساتھ منسلک نہیں ہیں۔

اس سلسلے میں نیشنل ایکریڈیشن کونسل فار ٹیچرز ایجو کیشن کے زیر اہتمام قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت، شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی فار وویمن پشاور اور سرحد یونیورسٹی آف سائنس اینڈآئی ٹی پشاورکے تعاون سے قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 15 اور16 مئی 2017 کودوسری دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں” پاکستان میں اساتذہ کی تعلیم وتربیت میں معیار کی ضمانت کے مسائل” سے متعلق ذیلی موضوعات پر تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین ، محققین اوراساتذہ نے تیس سے زائد تحقیقی مقالے پیش کئے۔ اس کانفرنس کے ابتدائی سیشن کے مہمان خصوصی گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی خان تھے جبکہ اختتام نشست کے مہمان خصوصی چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ڈاکٹرکاظم نیاز تھے۔جبکہ نیکٹی کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق طارق ،نیکٹی جنرل سکریٹری پروفیسر ڈاکٹر ارشاد فارخ اور وائس چانسلر قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف خان نے خصوصی طور پر کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں اساتذہ کی تعلیم وتربیت کو بہتر کرنے کے لئے مزید اقدامات پر غور کیا جائے اور ہمارے ہاں اساتذہ کی تعلیم پر کام کرنے والے ادارے اور ان میں دی جانے والی تعلیم و تر بیت ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کیا جائے۔

کانفرنس میں ہونے والی گفتگو سے جو نتائج اخذ کئے گئے ان میں نیشنل پروفیشنل سیٹنڈرز فار ٹیچرز کو مزید بہتر کرتے ہوئے اساتذہ کے لئے لائسنز کے نظام کو متعارف کرانا سر فہرست تھا ۔پروفشنل ٹیچرزایجو کیشن سٹریٹجیز2013 کی روشنی میں صوبوں کے درمیان سندھ اس ضمن سبقت لے گیا ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر اور پنجاب نے اس ضمن میں روڑ میپ 2011 میں تیار کیا تھا جس پر تاحال پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے ۔جبکہ سندھ میں ایک اپیکس کمیٹی اور ریگولیٹری باڈی یعنی سندھ ٹیچرز ایجو کیشن ڈیولپمنٹ اتھا رٹی کا قیام 2012 میں عمل میں لایا گیا ہے جس کا کام اساتذہ کے احتساب کے علاوہ ان کی بھر تیوں میں شفافیت اور ان کے لئے سر ٹیفکیٹ اور لائسنسزکے اجراء کے لئے معیارمقرر کر نا ہے تاکہ ایک استاد کس کلاس کو کو نسا مضمون پڑھا سکتا ہے اس کے لئے وہ باضابطہ لائسنس یافتہ ہو۔

کیونکہ اگر ڈرئیونگ کے لئے لائسنس کا ہونا لازمی ہے تو ٹیچر بننے کے لئے لائسنس کا ہونا اس سے زیادہ اہم ہے۔
کوئی نالائق ڈاکٹر بیک وقت ایک مریض کے لئے نقصاندہ ہو سکتا ہے یا کوئی انجنےئرکے کام سے کسی بلڈنگ یا روڑ کی خستہ حالی ہو سکتی ہے مگر ایک استاد اگر نااہل ہو تو ایک پوری نسل تباہ ہو سکتی ہے۔اس کے باوجود ہمارے ہاں استاد بننے کے لئے معیار مقرر نہیں ہے جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں متعلقہ اتھارٹی سے لائسنز لئے بغیر کوئی بھی فرد کسی سرکاری یا غیر سر کاری ادارے میں استاد بن جائے تو اس کو جرم تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ مقرر کردہ معیار پر پورا اترنے کے بعد استاد بننے والے شخص کو بھر پور مراعات ،عزت اور احترام دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں جس طرح کے لوگ اساتذہ بنتے رہے ہیں اس کو تعلیمی دھشت گردی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔( اس لئے پروفیسر ڈ اکٹر ہود بھائی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ہمارے ہاں جو تعلیم دی جاتی ہے اس سے بہتر ہے کہ تعلیمی ادارے بند ہی کر دےئے جائیں۔)
کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اب معیاری تعلیم پر خاص تو جہ دی جائے۔ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے اساتذہ مینجمنٹ کی بجائے پڑھانے پر لگا دےئے جائیں،دیہی آبادیوں میں قائم سکولوں کی طرف بھی اتنی ہی تو جہ دی جائے جتنی شہری سکولوں کو دی جاتی ہے، تحقیق کام اور پالیسیوں میں ربط قائم کیا جائے، اساتذہ کی تربیت کرنے والے اداروں کے معیار پر تو جہ یا جائے کیونکہ تعلیمی اداروں کا معیار صرف عمارتوں سے نہیں آتا بلکہ قابل اساتذہ سے آتا ہے، اساتذہ کے لئے پروفیشنل ڈگری حاصل کرنے کے لئے کم از کم پانچ سالہ پروگرام لازمی قرار دیا جائے، سکولوں اور کالجوں کے علاوہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے ۔پبلک اورپرائیوٹ سیکٹر کا اساتذہ کے ساتھ تعلق کو جوڈا جائے،اساتذہ کو انگلش اور کمپوٹر سے متعلق اپنی استعداد کار بڑھانے کی تر غیب دی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیچر بننے کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ معیارات مقرر کئے جائیں جن کی بنیادی پر ان کا بہتر سے بہتر مراعات دئیے جائیں تاکہ نئی نسل کو تعلیم دینے کے لئے وہ لو گ میسر ہوں جو معاشرے کے قابل ترین اور اہل ترین سمجھے جاتے ہوں۔ کیونکہ پڑھانے والوں کا معیار جب اچھا ہوتا ہے تو پڑھنے والوں کا معیار خود بہ خود اچھا ہوجاتا ہے۔
کانفرنس میں جس بات کی کمی محسوس کی گئی وہ یہ تھی کہ تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو زیر بحث نہیں لایا گیااور نہ ہی اساتذہ کی تعلیم پر کام کرنے والے تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق کی تعلیم دینے کے علاہ ان اداروں کے اندر تکثیریت، انسان دوست اقدار اور انسانی حقوق کی عملی تربیت کی ضرورت پر زور دیا گیا کیونکہ گذشتہ کچھ عر صے سے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رونما ہونے والے انتہاء پسندی کے واقعات اس بات کا تقا ضا کرتے ہیں کہ اب اساتذہ اور تعلیمی ادارے انتہاء پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر قابو پانے کے لئے اپنا بھر پورکرادار ادا کریں۔
اس کے باوجود موجودہ حالات میں نیکٹی کی یہ دوسری سالانہ قومی کانفرنس کا پاکستان کے دور دارز علاقے گلگت بلتستان میں انعقاد یقیناًقابل ستائش اقدام تھا جس کے لئے نیکٹی کے چیرمین اور ان کی ٹیم ،کے آئی یو کے وائس چانسلرسمیت کے آئی یو کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنت کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر رمضان اور ان کی ٹیم کے علاہ پاکستان بھر کی مختلف جامعات سے آئے ہوئے ماہرین تعلیم ، محققین اور اساتذہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ امید ہے ان کی یہ کاوش پاکستان میں اساتذہ کے معیار اور اہلیت کی ضمانت کے سلسلے میں کار گر ثابت ہوگی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button