شمس الرحمن تاجک
کہنے کو ہم ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں مگر عملی طور پر اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ، جس طرح ماں باپ بچے کی تربیت اپنے ماحول اور معاشرے کے حساب سے کرتے ہیں، بچے کو اچھے برے کی تمیز سکھائی جاتی ہے، بھلائی اور برائی میں فرق سمجھایا جاتا ہے، تہذیب اور ناشائستگی کے اصولوں سے ہر کوئی اپنے بچے کو روشناس اور بہتر روشناس کرانا چاہتاہے مگر جب یہی بچہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کسی بھی ہنر کے بغیر معاشرے سے دھونس، دھمکی اور قتل و غارت گری کے ذریعے دولت کما کر گھر لاتا ہے تو اس سے کوئی نہیں پوچھتا کہ بیٹا آپ اتنا پیسہ کما کیسے رہے ہیں، آپ کے ہاتھ الہ الدین کا چراغ لگا ہے یا پھر کوئی مدفون خزانہ ملا ہے،یہ سب پوچھنے کی زحمت کرنے کے بجائے ان سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کی بہتری کے بجائے اپنی بہتری، اپنے سے متعلقہ لوگوں کی بہتری کے بارے میں پہلے سوچیں، نہ صرف پہلے سوچیں بلکہ ذاتی مفادات کے لئے ہر وہ کام جائز سمجھیں جس سے الہامی مذاہب اجتناب کا حکم دیتے ہیں، ہمارے دوغلے پن کی حد دیکھئے کہ ایک بہتر پوزیشن پر کام کرنے والے گھر کے فرد سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ گھر سے باہر صرف اپنے گھر، اپنے رشتہ داروں اور اپنی ذات کا سوچے، مگر جیسے ہی یہ فرد گھر میں داخل ہو تو وہ ماں باپ کی دی گئی تربیت کا عملی نمونہ بن جائے جس میں مذہب بھی ہوتا ہے، اخلاقیات بھی ہوتی ہے، ماں باپ کا احترام بھی ہوتا ہے، بہن بھائیوں کے ساتھ خلوص کا رشتہ بھی ، مطلب کہ ہمارا تربیت یافتہ بچہ گھر سے باہر معاشرے کے لئے ہٹلر یا چنگیز خان بن جائے مگر گھر اور گھر کے افراد کے لئے فرشتہ ہو۔
اسی ڈبل اسٹینڈرڈ کی تربیت کے بل بوتے پر ہم معاشرے میں وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں جو اسلام کے اوائل دنوں میں خلفائے راشدیں نے ہمیں دکھایا تھا، یہ کبھی نہیں سوچتے کہ خلفائے راشدین کی تربیت کس نے کی تھی،ہم اپنی تربیت کے بل بوتے پر معاشرے سے توقع رکھ رہے ہیں کہ ہمارے حکمران فرشتوں جیسی صفات کے مالک ہوں، کبھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ہم پر حکمرانی کرنے والے افراد بھی اسی معاشرے کے تربیت یافتہ ہیں، جس طرح پورے ملک کے ہر گھر میں بچے کو یہ سمجھا کر معاشرے کے حوالے کیا جارہا ہے کہ انہیں اپنی بساط سے بڑھ کر کمانا ہے، چاہئے اس کے لئے کسی کا گلہ ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے، کسی کے بچے کی اپنڈکس کا آپریشن کرتے ہوئے اس کا گردہ ضرور چرانا ہے، اور وہی چرایا ہوا گردہ بیچ کر والدین کو حج پر بھیجنا ہے تاکہ وہ اللہ کے گھر سے پورے خاندان کے گناہ بخشوا کر لوٹے۔
ہمارے حکمران بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ان کو بھی وہی تربیت دی گئی ہے جو ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں ان کو ہر روز یہ سمجھا کر گھر سے رخصت کیا جاتاہے کہ آپ کی حفاظت اللہ میاں کرے گا مگر خالی ہاتھ شام کو گھر نہیں لوٹنا، ایک عام آدمی یا اس کے بچے کی حیثیت یہی ہے کہ وہ مزدور کا حق مارتا ہے، اپنی بساط کے حساب سے چوری کرتا ہے،یا بہت ہوا تو کسی گینگ کا حصہ بنتا ہے پھر گینگ کے سربراہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے سے الگ نظریات رکھنے والے افراد کے گلے کاٹتا ہے اور اسی خون آلود خنجر کو کمر سے باندھ کر شام کو اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتا ہے، نہ والدین کو احساس ہے کہ ان کا بچہ انسان ذبح کررہا ہے اور نہ ہی بچے کو احساس کہ وہ اپنے گھر والوں اور والدین کو انسانی خون پلا رہا ہے، پھر حکمران سے کیوں توقع رکھ رہے ہیں کہ وہ سب اچھا کرے گا، اس کی حیثیت آپ سے بڑھ کر ہے، آپ ایک انسان کو ذبح کرتے ہو وہ اپنی حیثیت کے حساب سے تعلیم سے محروم کرکے، صحت کی سہولیات سے محروم کرکے اور بنیادی انسانی ضروریات کی عدم فراہمی کو یقینی بنا کر ایک پوری نسل کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔
اگر ہمیں ملک تبدیل کرناہے، معاشرے میں بہتری لانی ہے، اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسا معاشرہ دینا ہے جس میں وہ بطور جانور نہیں بلکہ بطورانسان زندگی بسر کرسکیں تو ہمیں وہ تربیت ہر گھر سے شروع کرنی ہوگی جو انسانی معاشرے کی تشکیل کا سبب بن سکے، یہ دنوں میں تکمیل کو پہنچنے والا کام نہیں ہے، جس طرح گزشتہ تین دہائیوں میں ہم نے پوری محنت سے معاشرے کوبگاڑ دیا ہے اس سے کئی گنا تیزی سے ہمیں ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر معاشرے کی بہتری کے لئے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہوگی، ان کو قناعت سکھانا ہوگا، ان کوایک دوسرے کو برداشت کرنا سکھانا ہوگا، جھوٹ سے پرہیز سکھانا ہوگا، تعلیم زمانے کے حساب سے دینا ہوگا تاکہ اگلے پانچ دہائیوں میں معاشرے میں رہنے والے افراد اپنے آپ کو انسان سمجھنے لگیں۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button