کالمز

دانش مندانہ اقدامات کی ضرورت

بلال اکبر قریشی

دل دہلانے والے واقعات کی یلغار کے درمیان آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینا جوئے شیر لانے کی مترادف ہے۔مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حالات کی دباؤ سے قوم کی خوابیدہ صلاحیتیںیک لخت بیدار ہو کر نئے امکانات کی دنیا دریافت کرلیتی ہیں۔اس آن تو یہی محسوس ہاتا ہے کہ ہمارا وطن عزیز ایک ناکام ریاست کے زمرے میں آتا جارہا ہے جو معاشی، سماجی اور انتظامی بدحالی کے حوالے سے بارہویں نمبر تک آپہنچا ہے،کیونکہ اس کی بنیادی ادارے اپنی اہمیت اور فعالیت کھوتے جارہے ہیں۔ آج سے16برس پہلے امریکہ نے عالمی دہشت گردی کے نام پر جس جنگ کا آغاز افغانستان پر میزائیلوں کی بارش سے کیا تھا، وہ سالہا سال سے ہمارے پہاڑوں ، ہمارے قبائلی علاقوں، ہمارے دفاع کے قلعوں، ہمارے پولیس اسٹیشنون، ہمارے بازاروں، ہمارے تعلیمی اداروں، ہماری مسجدوں، عبادت گاہوں، درگاہوں میں لڑی جارہی ہے جس کا انجام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوفناک اور بہت خون آشام دکھائی دیتا ہے۔

اس طویل اور ہولناک جنگ میں ہمارے ہزاروں فوجی افسران جوان، رینجرز، پولیس کے اہل کار اور فرنٹیءئر کور کے جاں نثار جام ہائے شہادت نوش کرچکے ہیں،جبکہ پینتیس ہزار سے لگ بھگ شہری دہشت گردی کی نذر ہوئے ہیں اور لاکھوں مفلوج ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارا فزیکل انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ہماری معیشیت کو 48ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے اور سرمایہ کاری کا عمل رک جانے اور افراط زر میں غیر معمولی اضافے سے بیروزگاری اور مہنگائی زندگی میں ایک طلاطم خیز ہیجان پیدا کررہی ہے۔علی بابا اور چالیس چور جو حکومت اور ملکی وسائل پر قابض ہیں، انھوں نے پاکستان کے عوام سے خوشی اور امید کی ننھی سے کرن بھی چھین لی ہے اور انہیں محرومی اور مایوسی کے اندھروں میں دھکیل دیا ہے۔آج سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی بقا اور سالمیت کی جنگ لڑ رہا ہے، اس کی فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے اپنے اور غیروں کے تندوتیز حملوں کی زد میں ہیں اور بڑا خدشہ ہے کہ اگر دانش مندی اور میانہ روی سے کام نہ لیا گیا تو حوصلے پست ہوجانے اور داخلی انتشار بڑھ جانے سے خدانخواستہ ۔۔۔۔مشرقی پاکستان جیسا حادثہ پیش نہ آجائے۔بلاشبہ یہ ایک اعصاب شکن منظرنامہ ہے،لیکن اسے اجتماعی قوت ارادی، دانش مندی اور مستقل مزاجی سے مستقبل کے امکانات میں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنی غلطیوں،کوتاہیوں اور بداعمالیوں کا صدق دل سے اعتراف کرنا ہوگا۔اور پھر اپنے آپ کو بدل لینے کیلئے کمر ہمت کس لینا ہوگی۔قوم ایک مدت سے حقیقی تبدیلی کی راہ تک رہی ہے اور اس کے سامنے ایک واضح نصب العین رکھ جائے تو اس کے قدم اقتصادی ترقی اور قومی سلامتی کے راستے کی تلاش میں خودبخود اٹھانا شروع ہوجائیں گے۔اس مقصد کیلئے ترجیحات کا ازسر نوتعین اور ایک قابل عمل پروگرام کی ترتیب ناگزیر ہوگی یہ ذمے داری دانش وروں، سیاسی راہنماؤں اور دینی زعماء کو ادا کرنا ہوگی۔آج اولین ترجیح ملک کو متحد رکھنا اور قوم کو حوصلہ دینا ہے کیونکہ ہمارا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے اور پاکستان کے کچھ علاقوں میں تصادم اور نیم بغاوت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ہمیں فکری، ذہنی اور معاشرتی انتشار نے اپنے گرفت میں لے رکھا ہے اور ہم اپنے وطن ہی میں ایک دوسرے کیلئے اجنبی بنتے جارہے ہیں۔یہ کیفیت ہمارے ملک کی سلامتی کیلئے ایک کربناک علامت ہے۔

اولین ترجیح کا پہلا تضا یہ ہے کہ ہم ان مثبت قوتوں کو برائے کار لائیں جو ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات اور ملک کے مختلف علاقوں میں اتحاد اور یگانگت کو فروغ دے سکتی ہے۔ماضی میں اسلام ، جمہوریت، سیاسی جماعتیں اور فوج پاکستان کو متحد اور منظم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگرچہ بعض صورتوں میں ان کاکردار بڑے بڑے مسائل بھی پیدا کرنا رہا ہے۔ان کے اندر اصلاحاتی پروگرام شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جوہری صلاحیت سے ہمیں پورا پورا فائدہ اٹھانا اور ان کی افادیت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ہمارا دوسرا بڑا مسلہ دہشت گردی ہے جس نے ہمارے وجود میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور پوری دنیا میں ہماری تنہائی کا سامان پیدا کردیا ہے،ایک اور اہم ترین مسلہ ہماری اقتصادی زبوں حالی اور بیرونی امداد پر ہمارا غیر معمولی انحصار ہے۔ہمیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گی۔اس وقت ہمارے وطن کو ایک بہت بڑا چیلنج امیکی قیادت کی طرف سے جو انسداد دہشت گردی کی جنگ افغانستان سے پاکستان منتقل کرنے کا اعلان کرچکی ہے، جبکہ ہمارے سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے شدید ترین دباؤ میں ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر بڑے بڑے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اس حوالے سے ہمیں ایک متوازن خارجہ پالیسی کی تشکیل پر خاص توجہ دینا ہوگی۔یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہم پارلیمنٹ سے رہنمائی اور طاقت حاصل کرنے کی روش اپنائیں گے اور عوام کی حکمرانی کے خواب کی عملی تعبیر پیش کریں گے۔ایک اور اہم ضرورت اداروں کو مضبوط اور فعال بنانے اور ان میں تازہ روح پھونکنے کی ہے۔فوج ہمارا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے جو دہشت گردوں کے مدمقابل کھڑا ہونے، امریکی عزائم کی راہ میں سید راہ بننے، اندرونی شورشوں پر قابو پانے اور جوہری اثاثوں کی حفاظت کا حوصلہ اور طاقت رکھتی ہے۔ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اسے تند و تیزی میں ز ک نہ پہنچنے پائے۔

تحریک پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں کو اتحاد اور نظم کی لڑی میں پرونے کا عظیم کام اسلامی جذبے اور سیاسی عمل نے سرانجام دیا تھا اور قائد اعظم کی سحر انگیز اور تاریخ ساز شخصیت نے پرامن جدوجہد کے ذریعے انگریزوں اور ہندوؤں سے اپنی قوم کو آزادی دلائی تھی۔اور ایک جدید مسلم ریاست قائم کی تھی۔ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں کی غفلت، بے حسی اور مصلحت کوشہ وہ جزبہ ہماری زندگیوں میں راسخ نہ ہوسکا جس نے بیسویں صدی کا سب سے بڑا معجزہ تخلیق کیا تھا اور اس کے بابائے قوم نے پہلی دستور سا ز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کرکے روشنی کا مینار ثبت کردیا تھا۔اس عظیم دستاویز میں اسلام اور جمہوریت کے اصولوں کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جس کی مثال کسی اور اسلامی ملک میں نہیں ملتی ۔اس میں طے پایا تھا کہ اقتدار اللہ تعالی کی امانت ہے جس سے صرف عوام کے نمائندے استعمال کرنے کے حق دار ہوں گے اور قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہوں گے اور انہیں تحریر، تقریر اور اجتماع کی آزادی ہوگی۔اس کے علاوہ آزاد پریس اور آزاد عدلیہ کی ضمانت کی گئی تھی اور اقلیتوں کے مذہبی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق کا تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔پاکستان کو متحد رکھنے میں سیاسی جماعتیں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہیں مگر وہ چند بڑے مسائل سے دوچار ہیں۔ایک یہ کہ ان میں سے بیشتر میں جمہوریت کا فقدان ہے اور ان کے قیادت پر خاندان مسلط چلے آرہے ہیں جس کے باعث ان کا عوام کے ساتھ رابطہ خاصا کمزور ہے۔دوسرا یہ کہ ان کے فیصلوں پر جاگیردار، سرمایہ دار اور مفادپرست لوگ حاوی ہیں جو قومی اور عوامی ایشوں پر واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے مصلحت سے کام لینے اور وقتی فوائد کیلئے مختلف طبقات اور گروہوں کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔اسمبلیوں میں زیادہ تر وہ لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں جن کی نظر اقتدار کے فیوض اور دولت کے انبار پر لگی رہتی ہے اور وہ قومی یکجہتی کے فروغ میں بہت کم دلچسپی لیتے ہیں اس کے علاوہ انکا ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ مورثی قیادتیں فیصلہ ساز اداروں کیلئے ان افراد کا انتخاب کرتے ہین جو خوش آمد کے فن میں خاص مہارت رکھتے ہیں اور اختلاف کرنے سے اجتناب کرتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے گہرائی کے ساتھ سوچنے کا کلچر ناپید ہوتا جارہا ہے اور اعلیٰ سطح کے قیادت بھی عوام کے بنیادی مسائل کا ٹھوس حل پیش کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button