تحریر فیض اللہ فراق
گلگت بلتستان کی ستر سالہ تاریخ وفاقی گرانٹ سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے وسائل سے مالامال یہ خطہ آج بھی اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہو سکا ہے ۔ہر سال گلگت بلتستان میں سالانہ بجٹ کی باز گشت سنائی دیتی ہے مگر یہ دراصل وفاقی حکومتوں کا گرانٹ ہوتا ہے جس کو ہم مال غنیمت سمجھ کر مختلف شعبہ جات کیلئے تقسیم کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کی بجٹ کی تیاری سے لیکر اختتام تک راقم نے ہر چیز کا جائزہ باریک بینی سے لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم کتنے بدقسمت قوم ہیں کہ آج تک خود انحصاری کی جانب گامزن نہیں ہو سکے ہیں ہماری سوچ مفت خوری کی ہے اور سبسڈی کی گندم کو اپنے لئے سب کچھ سمجھ کر خواب غفلت اور سستی و کاہلی کی نیند سو جاتے ہیں۔ کام اور محنت کرنے کا رجحان گلگت بلتستان والوں میں نہیں پایا جاتا ہے جس وجہ سے تمام شعبہ جات میں زندگی کے چھوٹے چھوٹے امور کو نمٹانے کیلئے کام کرنے والے محنت کشوں کا تعلق ملک کے دیگر صوبوں سے ہے ۔گزشتہ سال کے حقائق کے مطابق گلگت بلتستان کا سالانہ کل ریونیو3 ارب سے زائد نہیں تھا جس میں سوست ڈرائی پورٹ محکمہ معدنیات سیاحت جنگلات اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے علاوہ تمام شعبے شامل تھے ۔بدقسمتی سے ذاتی ریونیو بھی گزشتہ ایک سال کے اندر 25 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ ماضی میں خود انحصاری کے سلسلے میں کبھی سوچا تک نہیں گیا ہے ۔ گلگت بلتستان آج تک وفاقی گرانٹ کے ذریعے اپنی بقا کو یقینی بنا رہا ہے اور گزشتہ سال صرف ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں وفاق سے 22 ارب سے زائد کا گرانٹ صوبے کو ملا اس کے علاوہ 12 ارب کے قریب ترقیاتی بجٹ کی صورت میں گرانٹ ملا جبکہ دوسری جانب وزیراعظم کے خصوصی اعلانات اور صوابدید کی صورت میں 7 ارب سے زائد گرانٹ ملا اور اس کے علاوہ فیڈرل پی ایس ڈی پی میں 70 ارب سے زائد کے منصوبے گلگت بلتستان کیلئے رکھے گئے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ گزشتہ 69 سالوں میں گلگت بلتستان کا ترقیاتی بجٹ 8 ارب سے آگے نہیں بڑھ سکا جبکہ خوش قسمتی یہ ہے کہ 2 سالوں کے اندر اندر 8 ارب سے 15 تک جا پہنچا ایک طرف سے یہ وزیراعلٰی گلگت بلتستان کی ایک بڑی کامیابی اور وفاقی حکومت کا گلگت بلتستان سے گہری محبت کا مظہر ہے ۔ 2004 تک گلگت بلتستان کو 4 ارب سے کم گرانٹ ملتا رہا جبکہ مشرف دور میں یہ 7 ارب تک چلا گیا مگر صرف 4 ارب گرانٹ ہی استعمال ہوا باقی 3 ارب سے زائد کی رقم وفاق کو واپس گئی ۔ جب 2009 میں صوبے اور وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور 2009 سے 2015 تک پانچ سالوں میں وفاق کی جانب سے صرف 1 ارب کی اضافت کے ساتھ 7 ارب تک پہنچا اور جب 2015 میں صوبے میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو پہلے سال 4 ارب کے اضافے کے ساتھ ترقیاتی بجٹ 12 ارب کر دیا گیا اور دوسرے سال یعنی گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے اس ترقیاتی گرانٹ کو 12 سے 15 ارب کر دیا جو کہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی اور طرز زندگی کو بدلنے کیلئے یہ ایک خطیر رقم ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت اور بروقت تکمیل کیلئے ایک مربوط مانیٹرنگ اور احتساب کی حکمت عملی اپنایا جائے تاکہ اتنی بڑی رقم غیر ضروری چیزوں میں ضائع نہ ہو۔ گلگت بلتستان کے باسیوں کو اس نکتے پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر کب تک ہم گرانٹ کا محتاج ہوتے رہیں گے ؟ ہم کیوں خود انحصاری کی جانب گامزن نہیں ہو سکتے ؟ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا کاہل اور محنت سے عاری رویہ نے ہمیں برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ ہم ہمشہ خوش فہمیوں میں رہتے ہیں اور جذباتی دنیا آباد کرتے رہتے ہیں جب حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ زندہ قومیں خود انحصاری کی جانب گامزن ہونے کیلئے اپنی حکومت کو ٹیکس ادا کرتی ہیں اور قومی خزانے بھر دیتی ہیں ۔ اور ہم ہیں جو بجلی کا بل بھی ادا نہیں کرتے اور نہ ہی خود زراعت و دیگر شعبوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی عوام وہاں کی قوم اور حکومت اس وقت تک مستحکم نہیں ہوگی جب تک یہ صوبہ اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہو گا اور جب تک یہ صوبہ اپنے وسائل کے استعمال سے اپنا بجٹ خود تیار نہیں کرے گا۔گلگت بلتستان وسائل سے مالامال خطہ ہے اور بآسانی اپنے وسائل سے خود انحصاری کا سفر طے کر سکتا ہے ۔ بدقسمتی سے عوام میں اجتماعی شعور اور تحقیق کی کمی ہے جس کی وجہ سے وفاقی گرانٹ کا محتاج ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہائیڈرو ‘ سیاحت ‘ معدنیات اور زراعت کے وسیع موقع موجود ہیں جن سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ دکھ کی بات ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے خطے کو خود انحصاری کی طرف لیجانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے اور ہم من الحیث قوم وقت ہی ضائع کرتے رہے ۔ پہلی مرتبہ موجودہ حکومت خودانحصاری کی وژن پر گامزن ہے اس سلسلے میں پورے صوبے میں زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کیلئے ایفاد پراجیکٹ کے ذریعے لاکھوں کنال اراضی حکومت اور عوام کی پارٹنرشپ سے آباد کرنے کا عمل جاری ہے اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے دروازہ کھولا گیا ہے اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کا قیام عمل میں لا گیا ہے تاکہ سرمایہ کاری کا یہ عمل قانون ضابطے اور دستور کے تحت تکمیل کو پہنچے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button