کالمز

اسلام کی نشاۃِثانیہ

صدر ممنون حسین نے انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام اباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علماء اور مشائخ پر زور دیا ہے کہ امن ،رواداری ،برداشت اور مل جل کر رہنے کے طریقوں کو فروغ دے کر اسلام کے نام سے منسلک ہونے والے بد امنی ،دہشت گردی ،عدم برداشت اور جنگ و جدل کے رویے کو ختم کرنے میں مدد دیں اس پر ردّعمل دکھاتے ہوے مولانا سمیع الحق نے بیان دیا کہ صدر کا بیان جہاد سے انکار کے مترادف ہے جہاد قیامت تک جاری رہے گا علماو مشائخ کا کا م یہ ہے کہ وہ جہاد کے جذبے کو فروغ دے کر اسلام کا بول بالا کریں عربی میں اس طرح کے ردّعمل کو ’’خلطِ مبحث‘‘کہا جاتا ہے صدر مملکت کا بیان مولانا سمیع الحق کے بیان سے مختلف نہیں ہے ا س کی ضد میں نہیں ہے مولانا صاحب نے بات کا رخ جہاد کی طرف موڑنے کیلئے صدر کے بیان کی مخالفت کی ہے آخر میں جا کے خود کہا ہے کہ اسلام نے ہمیشہ امن کا پر چا ر کیا اس پر دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ فرقہ واریت ،دہشت گردی اور بد امنی کی جولہر گذشتہ 40سالوں کے اندر پاکستان میں آئی اس لہر کو داڑھی اور پگڑی والے نیم خواند ہ لوگوں نے فروغ دیا ان کے ناموں کے ساتھ غلط طور پر مولانا ،حاجی،مفتی ،پیر،قاری جیسے القاب لائے گئے اور ایسے لوگ خیبر ایجنسی سے لیکر سوات اور دیر تک اسلام کے ترجمان اور مسلمانوں کے نمائندے بن گئے ان کے مقابلے میں مولانا تقی عثمانی ،مولانا رفیع عثمانی ،مولانا حسن جان شہید ،مولانا سلیم اللہ خان اور دیگر ہزاروں جیّد علمائے کرام کا ذکر کہیں بھی نہیں آتا دنیامیں جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے داڑھی والا مسلمان پکڑا جاتا ہے یہ منفی رویہ ہے اسلام کی روح کے منافی ہے بر صغیر کی تاریخ میں شاہ ولی اللہ دہلوی نے اٹھارویں صدی میں اس قسم کی سرگرمیوں کے خلاف مسلمانوں کو آگاہ کیا اور امّت کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا بیسویں صدی میں ترکی کے ا ندر مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور عرب ترک دشمنی نے اسلامی خلافت کو نا بود کر دیا ترکی کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ پیدا ہو اتو ردعمل میں مصطفےٰ کمال اتا ترک سامنے آیا اُس نے سکو لر ازم کے ذر یعے ترکی کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچا لیا موجودہ دور میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے امن ، رواداری،محبت اور برداشت کے ذریعے مسلمانوں کو متحدکرنے کی ضرورت ہے مولانا طارق جمیل اور قاری حنیف ڈار کی طرح حقیقت پسند سوچ کو آگے بڑ ھانے کی ضرورت ہے فقہی اختلافات کو دشمنی میں بدلنے کے بجا ئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے اور یہی بات بین الا قوامی اسلامی یو نیو رسٹی کی کا نفرنس میں کی گئی یہی بات ہرسال حج کے خطبے میں کہی جاتی ہے قاری حنیف ڈار نے اس سال رمضان المبارک کی آمد پر جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے بڑے پتے کی ایک بات کہی ہے انہوں نے کہا ہے کہ لاہور اور کراچی میں دیو بندی اوربریلوی ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھتے مگر شام کو اذان ہو جائے تو افطاری کے لئے اس بات کی تمیز نہیں کی جاتی کہ اذان دینے والا دیو بندی ہے یا بر یلوی ؟اسی طرح بریلوی اورشیعہ کسی وہا بی کے پیچھے نما ز نہیں پڑ ھتے مگر حج اور عمرہ کے سفر میں حرمین شریفین کے اندر وہ اس بات سے غرض نہیں رکھتے کہ آگے نماز پڑھانے والا بریلوی اور شیعہ ہے یا وہابی اورغیر مقلد ہے؟جس طرح افطاری کے وقت مسلکی دشمنی کو بھول جانا پڑتا ہے حج اور عمرہ کی عبادتوں میں مسلکی رقابت کو خاطر میں نہیں لایا جاتااس طرح کا رویہ عام زندگی میں اختیار کیا جائے تو اسلام کے اوپر ’’دہشت گرد‘‘کا لیبل نہیں لگے گا امام اعظٰمؒ کے دو نامور شاگرد وں نے ان کی رائے سے اختلاف کیا 40فیصد مسائل میں ا ختلاف رائے کے باوجود امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اورامام محمد کے درمیان محبت کا رشتہ استوار رہا محبت کے رشتے میں کمی نہیں آ ئی قاری حنیف ڈار اس وقت اسلام کی دعوت سے متا ثر ہونے والے نوجوانوں کے درمیان مقبول عالم دین اور مبلغ اسلام ہیں ان کی تازہ ترین تقریر کا عنوان ہے ’’تکمیل اسلام ‘‘قاری حنیف ڈار کہتے ہیں نویں ہجری میں نبی کریمﷺکے وصال مبارک سے ایک سال پہلے دین اسلام کے مکمل ہونے کی بشارت آیت کریمہ کے ذریعے دی گئی اس وقت شیعہ اور سنی نہیں تھے یوبند ی اور بریلوی نہیں تھے مقلد اور غیر مقلد نہیں تھے خانقاہوں ،مدرسوں اورمسجدوں پر حملے کرنے والے مسلح گروہ نہیں تھے ان سب کے بغیر دین اسلام کو مکمل کہا گیا تو پھر اسلام کے اُجلے لباس پر اس طرح کے پیوند لگانے کی کیا ضرورت ہے؟یقیناََ اس دورمیں قاری حنیف ڈار اورمولانا طارق جمیل کا طرز عمل اور ان کا اسلوب بیا ن مسلمانوں کو متحد کرکے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا پیغام عام کر سکتا ہے ۔
اُن کا جو کا م ہے اہل سیاست جانیں
میر اپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button