تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنویراحمد
گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کئے ہوئے چھ دہائیاں گزر چکی ہیں اس دوران اس علاقے کے لوگوں نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ڈوگروں سے آزادی حاصل کی تو ایف سی آر جیسے کالے قوانین میں جھکڑ گئے اس سے آزاد ہوئے توبیوروکریسی کے چنگل میں پھنسے ،علاقے کا نام بھی چھن گیا اور پھر ہوتے ہوتے داخلی خودمختاری کے نظام میں داخل ہوئے اور جمہوری عمل کا حصہ بنے ۔2009میں پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر کے تحت اسے صوبائی طرز کا نظام دیا لیکن آئین کی چھتری فراہم نہ کر سکی ۔ 2009 سے دسمبر2014تک گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ان پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی نے جو کام کئے ان کا صلہ عوام نے جون 2015کے انتخابات میں اسے دے دیا ۔جون 2015کے انتخابات میں گلگت بلتستان کے عوام نے مسلم لیگ ن کو اپنی خدمت کے لئے منتخب کیا اور ابھی صرف دو برس ہی بیت چکے ہیں اس دوران مسلم لیگ ن کی حکومت نے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کی قیادت میں جوکام علاقے کی تعمیر وترقی کے لئے کئے ہیں وہ بڑی حد تک عوامی پزیرائی حاصل کر رہے ہیں ۔گلگت بلتستان بے آئین علاقہ ہونے کی وجہ سے این ایف سی ،کونسل آف کامن انٹرسٹ جیسے قومی فورمز میں نمائندگی حاصل نہیں کر پا رہا ہے لیکن اس کے باوجود مرکزی حکومت اس علاقے کی تعمیر وترقی کے لئے صوبائی حکومت کی مدد کر رہی ہے اور بقول وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن وزیر اعظم محمد نوازشریف نے وعدہ کیا ہے کہ این ایف سی جیسے فورمز میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی نمایندگی دی جائے گی اور اگرسندھ اور خیبر پختون خواہ کی حکومتیں راضی ہوجاتی ہیں تو جولائی میں گلگت بلتستان کے عوام کو این ایف سی میں شمولیت کی خوشخبری بھی مل جائے گی ۔قومی مالیاتی کمیشن کے حالیہ اجلاس میں پنجاب اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے محاصل سے گلگت بلتتسان کو حصہ دینے میں آمادگی کا اظہار کیا ہے حتیٰ کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہبازشریف نے اپنے محاصل سے چار فیصد حصہ گلگت بلتستان کو دینے کا وعدہ کیا ہے ۔زرائع کے مطابق اگر سندھ اور خبر پختون خواہ کے وزرائے اعلیٰ اس اجلاس میں گلگت بلتستان کو اپنے محاصل سے تھوڑا حصہ دینے میں نہ ہچکچاتے تو اب تک جی بی این ایف سی میں شامل ہو چکا ہوتا ۔قارئین کرام ! اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کی کوششوں سے جہاں وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی پر توجہ دے رہی ہے وہی پنجاب حکومت بھی بھرپور سپورٹ کر رہی ہے اور اس وقت گلگت بلتستان کے چار سو سے زائد طلباء پنجاب کے پروفیشنل تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں جن کے تمام تر اخراجات حکومت پنجاب برداشت کر رہی ہے اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے گلگت بلتستان کے لئے کروڑوں روپے کی لاگت سے ایم آر آئی مشین دی ہے جو ڈی ایچ کیو ہسپتال گلگت میں نصب کر دی گئی ہے جس سے مریضوں کو علاج کے لئے ملک کے دوسرے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا ۔اس کے علاوہ پنجاب حکومت کروڑوں روپے مالیت کی ادویات بھی گلگت بلتستان کے ہسپتالوں کو دے رہی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جب تک گلگت بلتستان کو این ایف سی میں شامل نہیں کیا جاتا تب تک پنجاب حکومت گلگت بلتستان کو سالانہ ایک ارب روپے فراہم کرے گی ۔اس اعلان کے بعد صوبائی حکومت نے ایک ارب مالیت کے تین منصوبے پنجاب حکومت کو بھیجوادیئے ہیں جن پر کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جلد کام کا بھی آغاز کیا جائے گا ۔قارئین کرام ! گزشتہ پانچ برس گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اس عرصے کے دوران مرکز میں پی پی پی کی حکومت ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ میں صرف ایک ارب روپے کا اضافہ کیا گیا اور سندھ اور بلوچستان میں پی پی پی کی حکومتیں ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کی کوئی مدد نہیں کی گئی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر عوام کے ووٹ حاصل کرنے والی سراپا جمہوریت پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور خیبر پختون خواہ کی تحریک انصاف کی حکومت آج بھی گلگت بلتستان کو این ایف سی میں شامل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں اسی لئے سندھ اور کے پی کے کے وزرائے اعلیٰ نے قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں گلگت بلتستان کے لئے اپنے محاصل سے کچھ دینے کی بجائے اسے کل پر ٹال دیا ہے ۔سند ھ میں پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہیں اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن برسراقتدار ہونے کی وجہ سے یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمانی سیاست سے باہر ہیں اورپارلیمان سے باہر ہونے کے باوجود مختلف علاقائی ایشوز پر حکومت کو ٹف ٹائم بھی دے رہی ہیں لیکن ان کی علاقائی قیادت گلگت بلتستان کے اجتماعی مفاد میں اپنی اپنی جماعتوں کی مرکزی قیادت کے دہرے معیار کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہی ہے ۔اس سے یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف گلگت بلتستان کی صوبائی قیادت کی بات کو ان کی مرکزی قیادت کوئی اہمیت نہیں دے رہی ؟ حالانکہ گلگت بلتستان کے اجتماعی مفادات کے لئے ان دونوں سیاسی جماعتوں کی علاقائی قیادت کو اپنی مرکزی قیادت سے بات کرنی چاہیئے اور اگرچاہیں تواپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی سندھ اور کے پی کے کی حکومتوں سے گلگت بلتستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بڑے پیمانے پر نہ سہی لیکن چھوٹی سطح پر کوئی امداد حاصل کر سکتے ہیں ان صوبوں کے تعلیمی اداروں میں جی بی کا کوٹہ بڑھا سکتے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کی قیادت کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ اور کے پی کے کی حکومتوں کو اس بات پر رضامند کرائیں کہ وہ قومی مالیاتی کمیشن اور قومی اقتصادی کونسل جیسے بڑے فورمز میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کی مخالفت نہ کریں بلکہ حمایت کر کے عوام کا دل جیتیں۔ بہر حال گلگت بلتستان سے میاں شہباز شریف کو کسی ووٹ کی لالچ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ گلگت بلتستان کے عوام کے لئے پنجاب کے عوام کے حصے سے جذبہ خیرسگالی کے تحت مدد کر رہے ہیں ۔جس کے لئے میرے خیال میں گلگت بلتستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں چاہے وہ برسراقتدار جماعت ہویا اپوزیشن جماعتیں وزیر اعلیٰ پنجاب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔