کالمز

المناک روڑ حادثے کے بعد جنم لینے والے سوالات

شاہراہ قراقرم گلگت بلتستان کے باسیوں کے لئے ہمیشہ موت کا کنواں ثابت ہوا ہے۔ گذشتہ کئ دہائیوں میں تواتر سے رونما ہونے والے روڑ حادثات سے لے کر دہشت گردی کے واقعات تک اور قدرتی آفات سے لے کرمسافر بسوں کی لوٹ مار تک اس شاہراہ پر اپنے عزیزوں اور پیاروں کی قیمتی جانیں کھونے والے ہزاروں لوگوں پر اس شاہراہ کا نام سنتے ہی سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔

اس روڑ پر رونما ہونے والا ہر حادثہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے قیامت خیز ہوتا ہے۔ یہاں کا ہر ذی شعور ہر المناک واقع کے بعد غم زدہ ہوتا ، کف افسوس ملتا اور بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔

یہ سارے واقعات خودبخود رونما نہیں ہوتے بلکہ ان میں قدرت سے زیادہ انسانی کوتاہیاں کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ سیکورٹی سے لے کر روڑ سیفٹی تک کے تمام معاملات متعلقہ محکموں کی بہتر منصوبہ بندی کا تقاضا کرتے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر حادثے کے بعد کچھ عرصے تک بالائی حلقوں سے تعزیعتی بیانات جاری ہوتے ہیں اس کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے آگلے حادثے کا انتظار ہوتا ہے۔

حالیہ واقع روڑ حادثہ ہے جس میں بیس سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں اور اتنے ہی مسافر زخمی ہوئے ہیں۔ دیامر کے مقامی لوگوں نے اپنی بہترین روایات کی پاسداری کرتے ہوئے لاشوں اور زخمیوں کو سنھبالا اور ان کے عزیزوں کے حوالے کردیا۔ جس کے لئے وہ تمام رضاکار خراج تحسین کے مستحق ہیں جو ہر واقع کے بعد فورا جائے حادثہ پہنچ جاتے اورمثالی انسانی خدمت بجالاتے ہیں۔

یہ حادثہ کسی مہذب معاشرے میں رونما ہوتا تو متعلقہ وزیر یا محکمہ کا سربراہ استعفی دیتا ، قوم سے مانگتا ، تحقیقات کے بعد کوتاہی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دلانے کا اعلان کرتا لیکن ہمارے ہاں اس کی توقع رکھنا عبث ہے۔ گذشتہ ایک دو سالوں کے عرصے میں گلگت بلتستان میں پچاس سے زائد روڑ حادثات وقوع پذیر ہوئے ہیں جن میں درجنوں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔

مذکورہ حادثے نے ماضی کے حادثات کی طرح کئ سوالات جنم دئے ہیں۔ ان سوالات کا جواب یقننا کہیں سے نہیں آئیں گے لیکن ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ ایسے سوالات کے جوابات اگر بروقت مل جائیں تو ایسے خوفناک حادثات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اس روڑ پر سفر کے اوقات کون طے کرتا ہے؟

کیا اس روڑ پر رات کے اوقات سفر کرنا مناسب ہے؟

اس روڑ پر سفر کرنے والی بسوں کی فٹنس سرٹیفیکیٹ کون جاری کرتا ہے؟

کیا اس بات کی تسلی کی جاتی ہے کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے بس کا مکمل معائنہ کیا جائے؟

اس طویل اور کٹھن روڑ پر اپنی بسیں چلانی والی کمپنیوں کے لئے کیا ایس او پیز طے کئے گئے ہیں؟

ہر بس میں کتنے ڈرائیورز ہوتے ہیں، کیا ان ڈرائیورز سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ سفر سے پہلے انکی نیند پوری ہونے کا موقع ملا تھا یا نہیں؟

کیا ان ڈرائیورز کی تعیناتی سے قبل ان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا چیک اپ ہوتا ہے یا ان سے میڈیکل سرٹیفیکیٹ طلب کیا جاتا ہے؟

کیا ڈرائیورز کی تنخواہ اتنی ہوتی ہے کہ وہ لگن سے اپنے فرائض سر انجام دے سکے۔

کیا ڈرائیورز کو لیبر قوانین کے مطابق دیگر سہولیات اور مراعات دئے جاتے ہیں ، جن میں ان کے میڈیکل الاونس، ریسک الاونس، انشورنس وغیرہ شامل ہیں تاکہ ان کے لئے ڈرائیونگ کے سخت اصول طے کئے جاسکیں؟

کیا ڈرائیورز پر نشے کی حالت میں گاڑی چلانے پر پابندی ہے؟

کیا بس پر سامان اور مسافروں کے وزن کی کوئی حد مقرر ہے؟

کیا اس روٹ کے اوپر مختلف مقامات پر رک کر کمپنی کے زمہ داروں کی طرف سے بس کا معائنہ کیا جاتا ہے اور ڈرائیورز کی جسمانی اور ذہنی کیفت دریافت کی جاتی ہے؟

کیا اس روٹ پر تیز رفتاری پر کوئی قدغن ہے؟ اس کی حد کیا ہے اور کون اس پر نظر رکھتا ہے؟

اس روٹ پر سیفٹی کے لوازامات کو دیکھنا کس محکمہ کی ذمہ داری ہے؟

روڑ کی خستہ حالی، حفاظتی دیواروں اور جنگلوں کا نہ ہونا کس کی کوتاہی ہے؟

جن کے پیارے اور عزیزجاں بحق ہوتے ہیں کیا ان کے لئے معاوضہ کمپنی دیتی ہے؟

کیا مسافروں کا انشورنس ہوتا ہے؟

جو جواں سال لوگ اس روڑ پر سفر کے دوران حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں ان کے لواحقین اور بال بچوں کی دیکھ بھال کی زمہ داری کس کے سر پر ہوتی ہے؟

کیا ایسے حادثات کے بعد ٹرانسپورٹ کمپنی سمیت متعلقہ محکموں کے زمہ داروں سے باز پرس کرنا ہی کافی ہے یا ان پر بھاری جرمانہ عائد کی جائے اور سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ وہ ٹرانسپورٹ کے بنیادی اصولوں اور قوانین پر عملدرد کو یقینی بنا سکیں؟

کیا گلگت بلتستان کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والے دیگر آسان روٹس جن میں بابوسر کاغان ناران روڑ ، استور سے کشمیر کا روڑ اور غذر چترال روڑ شامل ہے کی بروقت تکمیل اور ان کو آل ویدر کرنے سے ایسے حادثات کے امکانات کم نہیں ہوسکتے؟

کیا دنیا بھر میں روڑ حادثات کے بعد حکومتیں تعزیتی بیانات پر اکتفا کرتی ہیں یا ہر حادثے کے بعد کچھ سبق سیکھ کر اپنی پالیسیوں یا قوانین میں تبدیلی لاتی ہیں؟

ہمارے ہاں حکومتیں کب انسانی جانوں کی حفاظت کو اپنی اولین زمہ داری سمجھیں گی؟ #

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button