کالمز

ایک نمبر کرپشن

دو سال پہلے صوبائی حکومت نے تعمیراتی کاموں کے ٹینڈر کی نئی پالیسی متعارف کرائی ، کمپوٹر کے ذریعے آن لائن ٹینڈر کا طریقہ رائج کرکے اعلان کیا کہ اب کرپشن نہیں ہوگی دو سال بعد میگا کرپشن کے بڑے بڑے کیس منظر عام پر آگئے ہیں چترال دیر، سوات اور بونیر میں ای ٹینڈر کے ذریعے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ٹھیکے پنجاب ، ہزارہ اور پشاور کے ٹھیکہ داروں کو دیدیے گئے ان لوگوں نے اپنا کمیشن وصول کرکے محکمے کا کمیشن اور کام کی ذمہ دار دوسرے ٹھیکہ دار کو فروخت کردی، دوسرے ٹھیکہ دار نے گاہک ڈھونڈنے کے بعد اپنا کمیشن لیکر تعمیراتی کام ایک اور ٹھیکہ دار کو فروخت کیا ای ٹینڈر کے ذریعے ٹھیکہ لینے والا رجسٹرڈ ٹھیکہ دار ہے رجسٹریشن کی تجدید کرتا ہے سب لٹ(Sub-let)کرکے کام لینے والا ٹھیکہ دار سیاسی کارکن ہے ایم پی اے یا ایم این اے کا ٹاوٹ ہے ضلع ناظم یا تحصیل ناظم کا ’’معاون خصوصی‘‘ہے وہ آگے تیسرے آدمی کے ہاتھ فروخت کرکے اپنا کمیشن کھرا کر لیتا ہے اس طرح ای ٹینڈر کا سسٹم میگا کرپشن کی نذر ہو گیا ہے اگر سابقہ ادوار میں کمیشن پر 30یا 40فیصد رقم خرچ ہوتی تھی کام کے لئے 70 یا 60فیصد رقم بچ جاتی تھی تو نئے سسٹم کے تحت 60 یا 70فیصد کمیشن کی نذر ہو جاتی ہے کام کے لئے 30یا40فیصد بچ جاتی ہے اس میں تیسرے نمبر کے ٹھیکہ دار کا منافع بھی شامل ہوتا ہے حکمرانوں کا فائدہ یہ ہے کہ وہ ای ٹینڈرنگ کے ذریعے پنجاب یا پشاور سے اپنے کاروباری پارٹنر یا سیاسی سپورٹر کو ٹھیکہ دیدیتے ہیں 3کروڑ روپے کے کام میں 60لاکھ روپے کا کمیشن اس کی جیب میں آسانی سے جاتا ے مگر سب لٹ(Sub-let)ہونے کے بعد تعمیراتی کام کا کوئی معیار نہیں رہتا تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن ایک دیہاتی مزدور سے یہ نہیں پوچھ سکتی کہ تم نے غیر معیاری کام کیوں کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ کاغذات میں جس ٹھیکہ دار کا نام ہے وہ موقع پر موجود نہیں وہ صرف بل اور کمیشن لیتا ہے ترقیاتی کام کروانے والے محکمے کو اس کاکمیشن ادا کرتا ہے آگے ’’انگار جانے لوہار جانے‘‘ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے کاموں پر نظر رکنے والے صحافیوں نے اس کو ’’ایک نمبر کرپشن ‘‘ کا نام دیا ہے ہمارے دوست سید شمس النظر شاہ فاطمی فرماتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے کوئی کام بھی دو نمبر نہیں کیا اگر کرپشن بھی کیا ہے تو ایک نمبر ہی کیا ہے جون کا مہینہ آتے ہی چترال بازار میں سڑکوں کی مرمت کا کام شروع ہوا یہ ڈھائی کروڑ روپے کا منصوبہ ہے ای ٹینڈر کے ذریعے ٹھیکہ حاصل کرنے والا ایک اہم سیاسی جماعت کا سپورٹر تھا وہ اپنا کمیشن کھرا کرکے بزنس سے علیحدہ ہوگیا ہے اب یہ کام کسی اور کے ہاتھوں میں ہے کام ایک دیہاتی آدمی کو(Sub-let)ہوا ہے مشکل یہ ہے کہ قواعد کے مطابق 30جون سے پہلے پیسہ خرچ ہونا چاہیے اب پہلی ترجیح یہ نہیں کہ کام کیسا ہوگا ؟ اب اولین ترجیح یہ ہے کہ 30جون سے پہلے پیسہ خرچ ہوجائے اب ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کام کس معیار کا ہوگا؟ اشتہار میں لکھا ہے ’’کرپشن کو ناں کہو‘‘ اشتہار میں آتا ہے ’’بدل رہا ہے پختونخواہ‘‘یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ کرپشن کو ناں کہنے کے بعد ہم کیا کھائینگے؟ گزارا کیسے ہوگا؟ اور کسی نے اس پر غور نہیں کیا کہ پختونخواہ بدل کر اچھا ہوا یا بُرا ہوا؟ 3کروڑ روپے کے منصوبے سے کمیونٹی کو 100روپے کا فائدہ نہیں ہوا گویا پختونخوا بدل چکا ہے سڑک کی مرمت کا کام مقامی ٹھیکہ دار کو دینے کے بجائے پنجاب کی پارٹی کو دیدیا گیا پختونخوا بدل چکا ہے اب مقامی ٹھیکہ دار کو کسی کام کا ٹھیکہ نہیں ملتاکسی شاعر نے علامہ اقبال کی نظم ’’بچوں کی دعا‘‘کی پیروڈی لکھی ہے جو تبدیلی کے موجودہ ایجنڈے پر صادق آتی ہے شاعر روحِ اقبال سے معذرت کیساتھ لکھتا ہے

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی ’’غبن‘‘ کی صورت ہو خدایا میری

ہو میرا کام ’’امیروں‘‘ کی حمایت کرنا

درد مندوں کی ضعیفوں کی مرمت کرنا

میرے مولا بھلائی سے بچانا مجھ کو

’’برُی ‘‘ جو راہ ہو اس را ہ پر چلانا مجھ کو

یہ نئی دعا ہے جو ٹی ایم ایز کے ذریعے مانگی جارہی ہے شانگلہ، بونیر اور چترال میں راولپنڈی ،لاہور یا پشاور سے ٹھیکہ دار لانے کا بنیادی مقصد بہتر مشینری کا استعمال اور کام کا بہتر معیار ہونا چاہیئے مقامی ٹھیکہ دار کے پاس مشینری دستیاب نہیں بڑے کام کا مطلوبہ تجربہ نہیں وہ ٹینڈر میں حصہ لینے کے لئے پری کوالیفائی نہیں اس طرح کی Out Sourcing اچھے نظم و نسق کی نشانی ہے مگر تجربے میں یہ بات آتی ہے کہ حکمرانوں نے میٹنگ میں کہہ دیا ’’ یہ سب چور ہیں یہ سب بے ایمان ہیں، ان کو ہرگز کام مت دو ای ٹینڈرنگ کرکے اپنے بندوں کو باہر سے لے آؤ‘‘ یہ حکمران کا پالیسی بیان تھا اس پالیسی بیان کی روشنی میں باہر سے ٹھیکہ دار لایا گیا اس نے کام Sub-let کردیا پیسہ خرچ ہوا ۔حکمرانوں کو فائدہ ہوا مگر کام کا ’’بیڑہ غرق ہوا منصوبے کا ’’ستیاناس‘‘ کیا گیا یہ الفاظ بھی ہمارے محبوب لیڈر کے ہیں مگر بقول غالب ؔ

روئے سخن کسی کی طرف ہو تورو سیاہ

سودا نہیں ، جنون نہیں وحشت نہیں مجھے

کپتان نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا ہماری حکومت کوئی دو نمبری نہیں کریگی چنانچہ ہماری حکومت دو نمبر کام بھی ایک نمبری کے اصول پر کررہی ہے ای ٹینڈر کے ذریعے ایک نمبر کرپشن کا راستہ بنایا گیا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button