بازار جاتے ہوئے راستے کی بائین جانب کھیت کے منڈھیر پر دو معصوم بچے کھیل رہے تھے ۔۔ایک بس میرے اویس کی عمر کے اور ایک بس میری شہلہ جتنی ۔۔۔میں نے بھی شہلہ کے لئے کپڑے خریدنے تھے ۔۔جب میں گھر سے نکل رہاتھا تو میری شہلہ کی آنکھوں میں چمک تھی ۔۔شوق آرزو تھی ۔۔اس کے ابو اس کے لئے عید کے کپڑے خریدنے جا رہا تھا ۔۔اس نے چہک چہک کے رنگ بھی پسند کیا تھا برانٹ کا بھی کہا تھا ۔۔برانٹ کہنے سے اس کا ابو ہنس پڑا تھا ۔۔۔شہلہ کا ابو زندہ تھا۔۔شہلہ کو بہت ساری چیزوں کا تجربہ نہ تھا ۔۔اس کو پرانے کپڑوں میں عید کا تجربہ نہ تھا ۔۔اس کو باپ کے نہ ہونے کا بھی تجربہ نہ تھا ۔۔اس کی آنکھوں میں کبھی شکست کے آنسو نہیں آئے تھے ۔۔شہلہ کی ماں کی آنکھوں میں کبھی افسردگی نہیں اُتری تھی ۔۔اس لئے شہلہ چہک چہک کر اپنے ابو سے اپنی پسند کا ذکر کر رہی تھی ۔۔۔کوئی طاقت میرے قدم روکی ۔۔میں توجہ سے بچوں کو دیکھنے لگا ۔۔بچے مجھے اپنی طرف متوجہ پاکر سہم سے گئے ۔۔میں نے ان کو اپنے پاس بلایا وہ نہیں آئے ۔۔میں خود ان کے پاس گیا ۔۔وہ گھروندے بنا کے کھیل رہے تھے ۔۔دو پرانے کپڑوں کے چھیتڑے تھے دو چار ٹوٹی بوتلوں کے ٹکڑے ۔۔۔خود ان کی رشمی ذلفیں ،چاند چہرے اور کومل ہاتھ مٹی میں لت پت تھے ۔۔۔میں نے نام پوچھا ۔۔انھوں نے نام بتایا ۔۔میں نے کہا ۔۔عید کے کپڑے ہیں ۔۔انھوں نے سر کے اشارے سے کہا ۔۔نہیں ہیں ۔۔گویا کہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ان کے پاس کپڑے ہوں ۔۔۔میں نے کہا ابو نے نہیں بنایا ۔۔تو اس بچی نے نہایت معصومیت سے کہا کہ ہمارے ابو نہیں ہیں ۔۔میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔۔میں انسانیت کے اوج ثریا سے تخت اسری میں گر گیا ۔۔مجھے سانپ سونگھ گیا ۔۔میرے دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ۔۔میں لبنی کی آنکھوں میں ڈوب گیا ۔۔اس کے الفاظ کی خنجر سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔۔قرآن کا وہ اشارہ یاد آیا کہ اپنے دوست کی مجبوری اس کے کہنے سے پہلے محسوس کرو ۔۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا وہ واقعہ کہ اس کا دوست پیسے مانگنے آیا اس کو پیسہ دیا جب دوست گیا تو رونے لگا بیوی نے کہا عجیب ہو پیسہ دیا کیوں اگر دیا ہے تو روتے کیوں ہو ؟اس نے کہا کہ اپنی بے غیرتی پہ روتا ہوں کہ کیسا دوست ہو ں میرے دوست مجبور ہو کر میرے پاس آنے تک مجھے احساس نہیں ہوتا کہ میرے دوست کو کسی چیز کی ضرورت ہے ۔۔۔مجھے پتہ نہیں کہ لبنی کے ابو مر چکے ہیں ۔۔وہ بے سہارا ہے اس کے پاس عید کے لیے کپڑے نہیں ہیں ۔۔میں صرف اپنی شہلہ کے لئے زندہ ہوں ۔۔۔میری جیب میں پیسے ہیں ۔۔میں نے اپنی جیب ٹٹولنے کے لئے ہاتھ اٹھایا لیکن میرے ہاتھ میری جیب کی جگہ میرے دل کے اوپر جا ٹکے ۔۔میرا دل زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔میں تڑپ رہا تھا وہ میری اس حرکت پہ حیران تھے ۔۔۔میں نے کہا۔۔تم یہیں پہ کھیلتے رہو میں واپس آتا ہوں ۔۔میں اپنے گھر کی طرف دوڑنے لگا ۔۔میرے ساتھ پوری کائنات دوڑ رہی تھی ۔۔چاند سورج،زمین آسمان ۔۔۔پہاڑ دریا ۔۔پھول کانٹے ۔۔جنگل صحرا ۔۔میں ایک مجرم تھا ۔۔انسانیت کا مجرم ۔۔مجھے درد دل کے واسطے پیدا کیاگیا تھا ۔۔میں لبنی اور اس کے بھائی کا مجرم تھا ۔۔۔میں ہانپتے کانپتے گھر پہنچا ۔۔اور شہلہ کی ماں کو کہانی سنائی ۔۔۔میں اپنی شہلہ کا ہاتھ پکڑ کے گھر سے نکل رہا تھا تو اس کی ماں کی آواز آئی ۔۔شہلہ بیٹا پہلے لبنی کے لئے کپڑے خریدو ۔۔میں تینو ں کو لیکرکپڑے کی دکان میں بیٹھا تھا ۔۔شہلہ اپنے کپڑے شاپر میں ڈالی ہاتھ میں اٹھائی ہوئی تھی ۔۔لبنی اور اس کا بھائی اپنے کپڑے سینے سے لگائے ہوئے تھے ۔۔۔میں گلشن انسانیت کے تینوں پھول لے کے دکان سے نکل رہا تھا ۔۔ساری کائنات ہنس رہی تھی ۔۔پہاڑ کہہ رہے تھے ۔۔تو نے انسانیت کا بھرم رکھا ۔۔سمندر کہہ رہے تھے ۔۔۔لبنی کو ہنسا کے اچھا کیا ۔با رش کے قطرے پھول بن کے نچھاور ہو رہے تھے ۔۔پرندے خوشی کے گیت گا رہے تھے ۔۔چاند ساتھ ساتھ آرہا تھا سور ج لبنی کی آنکھوں میں اتر آیا تھا ۔۔ ۔۔ شہلہ کی ماں لبنی کے کپڑے کاٹ کر سینا شروع کر دیا تھا ۔۔لبنی ایسی بیٹھی تھی جیسے کائنات کی شہزادی اپنے عروسی کے جوڑے کے انتظار میں بیٹھی ہو ۔۔۔کل عید ہو گی اور یہ عید صرف لبنی کی ہو گی ۔۔اور لبنی کی مسکرا ہٹ میں ساری کائنات ڈوب جائے گی ۔۔۔۔کیا ہم میں سے کسی کو ان سب باتوں کا احساس ہے ۔۔۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button