کالمز

سکولوں میں اردوپڑھانے کیلئے پہلاورکشاب

 بحیثیت قوم ہم نے اپنے لئے آئین بنایا ہے اس میں لکھا ہے کہ’’ اردو ہماری قومی زبان ہو گی‘‘ مگر ہم نے آئین میں بھی انگریزی میں لکھا ہے یہ جملہ کہ’’ اردو ہماری قومی زبان ہوگی‘‘ ۔۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے کہ ہم نے اپنے آئین کو لکھنے کے لئے کسی انگریز کو بلایا تھا اور اس کو پیسہ دے کر لکھوایا تھا کیونکہ ہمیں شاید درست انگریزی نہیں آتی تھی ۔جب سے ہمارا سب کچھ انگریزی میں ہے ۔۔زبان و بیان سے لے کر نشست و برخواست تک ۔۔سوچ سے لے عمل تک ۔۔پڑھائی سے لے کر امتحان تک ۔۔ٹیکنالوجی سے لے کر تعمیرتک ۔۔عدالت سے لے سیاست تک۔۔ آرزووں سے لے خوابوں تک۔۔ تمام انگریزی میں ہیں ۔ہمیں انگریزی زبان میں مہارت پہ فخر ہوتا ہے اور اردو زبان میں اناڑی ہونے پہ فخر کرتے ہیں ۔بڑے تعلیم یافتہ لوگ فخر سے کہتے ہیں ۔۔’’مجھے اردو کے ’’کا ، کے ، کی ‘‘ نہیں آتے ‘‘اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بندہ ا ن پڑھ ہے ۔۔کوئی انگریز کبھی یہ نہیں کہے گا کہ اس کو انگریزی کے This ,That نہیں آتے ۔۔یہ اس کی موت ہے ۔مگر ہم کیسی قوم ہیں ۔ہمیں اپنی نااہلی پہ فخر ہے ۔۔اردو کبھی ترقی کی راہ میں روکاوٹ نہیں ہے ۔۔مانا جائے گا کہ انگریزی بین القوامی زبان ہے ۔۔ٹیکنالوجی کی زبان ہے ۔۔رابطے کی زبان ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے اورغلامی ہے کہ انگریزی ہمارے بڑوں کی زبان ہے ۔۔دفتری زبان ہے ۔بڑے بڑے امتحانات اس زبان میں لیے جاتے ہیں ۔۔لیکن سوال یہ ہے ان سب کے باوجود کیا ہم اس بات پہ فخر کریں کہ ہمیں اردوکا الف با نہیں آتا ۔۔ہمارے سکولوں میں بنیادی طور پر قومی زبان میں کتابیں ہیں ۔پڑھانے والے استاد کو کوئی پرواہ نہیں کہ اس کی اردو کمزور ہے ۔۔آفیسر کو کوئی پرواہ نہیں کہ اس کی اردو کمزور ہے ۔۔والدیں اردو بولنے سے ناراض ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ انگریزی ہماری مجبوری ہے کیونکہ ان کے بچوں کا مستقبل انگریزی سے وابستہ ہے ۔۔لیکن ان اساتذہ سے شکوہ ہے کہ ان کا کام ہی پڑھانا ہے وہ جب اردو کے الف با سے بے خبر ہیں وہ آگے پڑھاتے کیا ہیں ۔اور بچے پڑھتے کیا ہیں ۔۔حکومت نے جب یہ شدت سے محسوس کیا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار گرتا جا رہا ہے تو اس نے پرائمیری سکولوں میں تعلیم و تعلم کے عمل میں بہتری لانے کے لئے ’’سیپ‘‘ پروگرام متعارف کرایا ۔آغا خان یونیورسٹی اورپی ڈی سی سی کے تعاون سے محکمہ تعلیم نے یہ پروگرام شروع کیا اور سن دو ہزار سولہ سے یہ پروگرام جاری ہے ۔۔ابھی تک تقریبا119گورنمنٹ پرائمری سکول اور 21کمیونیٹی سکولوں میں کام ہورہا ہے ۔۔اس سلسلے میں سینکڑوں اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت ہوچکی ہے ۔۔سکولوں میں سامان دئے گئے ہیں ان میں کمروں کے لئے کارپٹ ،میز کرسیاں دی گئی ہیں ۔۔ای سی ڈی کلاسیں قایم کی گئی ہیں ۔۔سکول کے بچوں اور والدیں کے لئے لائیبریریا ں قائیم کی گئی ہیں ۔۔اور سب سے بڑی اور نئی بات یہ کہ سکولوں میں ای سی ڈی سے لے کر جماعت پنجم تک اردو پڑھانے کے لئے پی ڈی سی سی نے تقریبا ساٹھ اساتذہ کرام کی تربیت کی ۔اور آگے یہ سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ ہے ۔۔پی ڈی سی سی کی۔۔۔کنسلٹنٹ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اینڈ اے کے ایف پاکستان ڈاکٹر رفعت نبی نے بڑی محنت سے اردو کی ٹرینگ کے لئے ایک کتابچہ بنائی ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا کتابچہ ہے۔۔انھوں نے خود چترال آکر اس کتابچے کی بنیاد پر دو ٹرینرز کو تیار کیا ۔۔انھوں نے سے تقریباً ساٹھ اساتذہ کو تربیت دی ۔۔اساتذہ کو ٹرینگ لیتے ہوئے بر ملا یہ اقرار کرنا پڑا کہ ان کی اردو کمزور ہے اور انھوں نے یہ محسوس کیا بلکہ مطالبہ کیا کہ ان کے لئے اردو زبان میں بنیادی مہارت حاصل کرنے کے لئے لمبی سی تربیت رکھی جائے تاکہ وہ اپنی ان بنیادی کمزوریوں پر قابو پا سکیں ۔اس سلسلے میں محکمے کے آفیسروں کی موجودگی میں بڑے پیمانے پہ ایک ریویو میٹنگ ہوئی اس میں پی ڈی سی سی کے ہیڈ جناب ڈاکٹر ریاض نے بڑی تفصیل سے سکو لوں میں بہتری لانے کے پروگرام کی کامیابیوں پر کیمرے کی آنکھ میں لائی ہوئی تفصیلات سے حاضریں کو اگاہ کیا ۔شرکا نے اردو کی ٹرینگ کو اپنی نوعیت کی پہلی ٹرینگ قرار دیا۔۔ واقعی میںیہ اپنی نوعیت کی پہلی ٹرینگ تھی اس کا میابی کا سہرا پی ڈی سی سی کے سرجاتا ہے ۔۔کہ انھوں نے پہلی دفعہ قومی زبان کو سکولوں میں بہتر اور درست طریقے سے پڑھانے کے لئے اساتذہ کی تربیت کی ۔۔اور آگے اردو کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی بہتر پڑھائی کے لئے اور ٹرینگز کا ارادہ رکھتی ہے ۔۔اس اہم مسلئے پر اس سے پہلے کسی نے توجہ نہیں دی تھی اردو کو یا تو غیر ضروری یا اسان سمجھ کر نظر انداز کیا جا رہاتھا ۔اساتذ ہ کی پیشہ ورانہ مہارت کو بڑھانے کے لئے پی ڈی سی سی کی خدمات قابل تحسین ہیں یہ ماہر اساتذہ کو ٹرینگ دینے اور ٹرینگ لینے کے لئے منتخب کرکے ان کے تجربوں اور قابلیت سے فائیدہ اُٹھاتی ہے اور تعلیم کے میدان میں بیمثال خدمات انجام دے رہی ہے ۔۔پی ڈی سی سی کے پاس اس لحاظ سے ہر قسم کی سہولت موجود ہے ۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button