کالمز

گلگت بلتستان اور بلوچستان سازشوں کے حصار میں

احمد الائی

پاکستان کی پہچان دنیا میں ایک نظریاتی ملک کی ہے ،پاکستان کے دشمن بھارت نے روز اول سے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ چانکیائی فلسفے کا پیرو کار بھارت پاکستان کے خلاف ہر محاز پر لڑنے کو فرض تصور کرتا ہے نظریاتی بنیاد پر حاصل کیا گیا ملک شروع دن سے ہی دشمن کا اولین ہدف رہا ہے۔نہرو سے لے کر مودی تک جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے اپنی عوام کو خوشحالی دلانے کے بجائے پاکستان کے خلاف سازشوں میں وقت گزارا اگر بھارت کے حکمران پاکستان کے خلاف سازشوں میں وقت کا ضیاع کرنے کے بجائے اپنی عوام کی خوشحالی کیلئے وقت صرف کرتے تو یقیناًبھارت کا شمار امیر ملکوں میں ہوتا لیکن کیا ہے کہ بھارت کے حکمرانوں کو اپنے گھر کی فکر تو ہے نہیں جس گھر میں بھوک افلاس کا راج ہے اپنے گھر کے افراد کی بھوک مٹانے کی فکر نہیں لیکن مودی جی پاکستان کو کمزور کرنے کے خواب دیکھتے دیکھتے تھکتے نہیں ،لال قلعے میں کھڑے ہو کر بھاشن دے رہے تھے کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان کے لوگ ہم سے رابطے میں ہیں۔

گلگت بلتستان اور بلوچستان کے لوگ بھارت کے مکروہ چہرے سے واقف ہیں البتہ بیرون ملک رہنے والے اور بھارت کے ٹکڑوں پر پلنے والے کچھ ننگ وطن ضرور رابطے میں ہوں گے،لیکن سوال یہ ہے کہ ان ننگ وطنوں کی بات مانتا کون ہے چند ٹکوں کیلئے دشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والے ان غداروں سے گلگت بلتستان اور بلوچستان کے لوگ نفرت کرتے ہیں ،بھارت اس وقت بہت تکلیف میں ہے جب سے سی پیک پر کام کا آغاز ہوا ہے اسے پاکستان کا ابھرتا ہوا مستقبل اور بھارت کا ڈوبتا ہوا معاشی اور سیاسی مستقبل نظر آرہا ہے ،اسی لئے اسے کسی پل چین نہیں آرہا ہے اور مسلسل ہر محاز پر پاکستان کے خلاف سر گرم عمل ہے ،جب بھارت نے یہ دیکھا کہ پاکستان سے کھلم کھلا جنگ نہیں کرسکتے تو اس نے اپنی ناپاک‘‘را’’کے ذریعہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کو پروان چڑھاناشروع کردیا جس کا واضح ثبوت بلوچستان سے پکڑا جانے والا بھارتی خفیہ ایجنسی‘‘را’’کا حاضر سروس ایجنٹ کلبھوشن یادو ہے۔.اللہ کا شکر ہے بھارت کا اصل چہرہ ایجنٹ کلبھوشن یادو کی شکل میں سامنے آگیا اور اس کے تمام عزائم خاک میں مل گئے ،بھارت جس طرح بلوچستان میں اپنی ناپاک حرکتوں سے بعض نہیں آتا بالکل ایسے ہی اب اس نے اپنے پھن گلگت بلتستان میں بھی پھیلا دئیے ہیں اور سب سے پہلا شکار نوجوان نسل ہے نوجوان نسل کے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے مایوسی اور بددلی پیدا کرنے کے لئے بھارت نے بیرون ملک رہنے والے کچھ ننگ وطنوں کو تیار کیا ہے جو سوشل میڈیا کے زرئیے صبح شام یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ پاکستان گلگت بلتستان کے وسائل پر قابض ہے اور اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد نہ صرف گلگت بلتستان کو معاشی حوالوں سے حصہ نہیں ملے گا بلکہ گلگت بلتستان کا کلچر بھی تباہ ہوگا۔

الغرض ہر وہ حربہ اور پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ جس سے گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں مایوسی پیدا ہو جائے اور وہ بغاوت پر اتر آئیں ،حالانکہ حقائق اس کے منافی ہیں اقتصادی منصوبے سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کے چاروں میں صوبوں میں خوش حالی آئے گی،بھارت نے اس کام کیلئے نہ صرف ہر جگہ اپنے ایجنٹوں کو چوکس کیا ہے بلکہ کچھ دانشوروں اور لکھاریوں کو بھی تیار کیا ہے اور سوشل میڈیا کے لئے بھی لوگ تیار کئے ہیں کہ اقتصادی منصوبے کے خلاف پروپیگنڈے پر زور دیا جائے اور باالخصوص بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مایوسی پیدا کرنے کیلئے میڈیا کے تمام حربے آزمائے جائیں یہی وجہ ہے کہ جب سے اقتصادی راہداری منصوبے پر کام کا آغاز ہوا ہے سوشل میڈیا پر دشمن کے اشاروں پر ناچنے والے بندر دن رات ایک کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان اور بلوچستان کے نوجوانوں کو بغاوت پر اکسایا جائے ،مختلف ناموں سے فیس بک اکانٹ اور وٹس اپ گروپ بنا کر بہت زور دار طریقے سے اقتصادی راہداری منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے اور بالخصوص گلگت بلتستان کے لوگوں میں پاکستان سے نفرت کا زہر پیدا کرنے کے لئے تو بہت ہی منظم طریقے کے دشمن سازشیں کر رہا ہے۔

دشمن کے اس کام میں بیرون ملک رہنے والے ان علاقوں کے کچھ لوگ مددگار ثابت ہو رہے ہیں اور یہی بیرون ملک رہنے والے لوگ سوشل میڈیا اور با لخصوص وٹس اپ گروپوں کے زرئیے گلگت بلتستان میں مایوسی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آس پاس دشمنوں کے آلہ کاروں کو پہچانیں جو غیر محسوس انداز میں قوم کے اندر مایوسی پیدا کر کر دشمن کے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں ،خرابی ہمیشہ اندر سے واقع ہوتی ہے اور پھر سرطان کی طرح پورے نظام کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب پھوڑا متعفن ہوجاتا ہے توپھر نشتر اور آپریشن ناگزیر ہوجاتا ہے، قدرت کا کوڑا برستا ہے اورآنے والی نسلوں کے لیے عبرت کے نشان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ کوڑا کبھی چنگیز کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، کبھی ہلاکو کی صورت میں، کبھی تیمور کی صورت میں، کبھی نادر شاہ کی صورت میں اور کبھی آپس میں لڑ لڑ کر مرنے کی صورت میں۔ قدرت کی طرف سے یہ عذاب اس وقت نازل ہوتے ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہوجائے یا اصلاح کی طرف متوجہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کی بات نہ سنی جائے، بلکہ ان کی تذلیل کی جائے۔ قدرت جلدی کسی قوم سے ناامید نہیں ہوتی، انتظار کرتی ہے۔ آخری اور کاری ضرب اس وقت لگائی جاتی ہے جب خیر کا عنصر قومی جسد سے خارج ہوجاتا ہے۔ جذبہ حُریت ہی قوموں کو بیدار رکھتا ہے، آزادی کی تڑپ ہی دِل میں ولولہ پیدا کئے رکھتی جنگیں جدید ہتھیار سے لیس ہو کر یا تعداد کی کثرت سے نہیں، جذبوں سے جیتی جاتی ہیں۔ ملک کا دفاع ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے اپنی بقاء کی جنگ۔ آج جنگ میں ہولناک ہتھیار، الفاظ کا پروپیگنڈہ ہے۔ جس قوم کا مورال گِر جائے، وُہ نفسیاتی طور پہ ہمت ہار بیٹھتی ہے۔ مورال قوم کے جذبوں میں خود اعتمادی اور ولولہ کو، حوصلہ اور برداشت کے ساتھ، برقرار رکھتے ہوئے بڑھاتا ہے۔ جس قوم کا مورال بڑھ جائے، وُہ ہاری ہوئی بازی بھی جیت لیتی ہے۔ان حالات میں ہماری زمہ داری ہے کہ ہم اپنے ارد گرد نظر رکھیں اور اپنی آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button