تحریر: امیرجان حقانی
دوستو! میں ہنستا ہوں ، احباب کوہنساتا ہوں،محفلوں میں مزاحیہ چٹکلوں سے قہقہے لگواتا ہوں، دوستوں کے پاس جاتا ہوں اور انہیں اپنے پاس بلاتا ہوں،ہر قسم کی مجلسیں بھی اٹینڈ کرتا ہوں۔ سیر و سیاحت بھی کرتا ہوں اور پڑھتا لکھتا بھی ہوں اور فیس بک اور واٹس آپ میں بھی ایکٹیو رہتا اور اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں بھی نبھاتا، اور سماجی رشتے بھی اور معاشرتی ناطے بھی۔لیکن دل چاہ رہا ہے کہ آج آپ کے ساتھ اپنا حقیقی کرب بھی شیئر کروں۔ یہ تو آپ کو کئی بار بتاچکا ہوں کہ میری والدہ گزشتہ چار سال سے سخت علیل ہے۔اگر میں اس علالت کو بستر مرگ سے تشبیہ دوں تو غلط نہ ہوگا۔
میری والدہ کو ’’پارکنسن‘‘ نام کا کوئی مرض لاحق ہے۔ اس مرض کی تشخیص اولاً، ڈاکٹر پروفیسر خلیق الزمان صدیقی(ہیڈ : پمز اسلام آباد) نے 2012ء میں کیا۔ ثانیاً پروفیسر ڈاکٹر مظہربادشاہ(پمز) نے2014میں کیا۔اور بھی درجنوں ڈاکٹروں اور اطباء و عاملوں نے تشخیصات کی۔میں نےاپنی بساط اور حیثیت کے مطابق ہر ممکن علاج کرایا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
میری امی جان کا پورا جسم شل ہے۔دونوں ہاتھ، بازو اور پاوں تھر تھر کانپتے ہیں، لیکن کانپنے کی مقدار زیادہ نہیں۔جسم مفلوج سا ہوگیا ہے فالج نہیں لیکن فالج زدہ سی ہوگئی ہے۔جسم سکڑرہاہے روز بروز، اپنی کروٹ تک نہیں بدل سکتی۔ ہاتھ سے روٹی کا لقمہ تک نہیں اٹھا سکتی۔اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتی۔کمر کے ساتھ لگا تکیہ ٹھیک نہیں کرسکتی۔ باتھ روم تک نہیں جاسکتی۔ میری وائف اور دو بہنیں ہمہ وقت اس کے پاس رہتی ہیں۔ ان کو اٹھا کر بیٹھانا ہوتا ہے۔کروٹ بدلاوانی ہوتی ہے۔ تکیہ سیدھا کرنا ہوتا ہے۔ انہیں ایمرجنسی مریضوں کی طرح اٹھا کر باتھ روم تک لے جانا ہوتا ہے۔ اور پھر
اچانک اتنی زور سی چیختی ہے کہ گہری نیند میں سویا ہوا انسان دوسرے کمرے میں ہڑبڑا کر جاگ جاتا ہے۔ ان کا چیخیں مارکر رونے کا معمول روزانہ کا ہے۔ انہیں خود بھی اس کا پتہ نہیں چلتا۔یہ بھی مرض کا ایک حصہ ہے۔ اب تو ہم عادی ہوگئے ہیں۔ایک طویل عرصہ ہم سب بہن بھائی اور گھر والے بھی والدہ کے ساتھ ساتھ روتے رہےہیں۔ پھر ایک میجر ڈاکٹر کی تشخیص یہ ہوئی کی رونا ان کے لیے بہت ہی مفید ہے۔اب جب بھی والدہ چیخیں مارکر روتی ہے تو ہم بہن بھائی ملکر انہیں ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لطیفے سناتے ہیں۔انہیں یہ نہیں کہتے کہ چپ کریں۔ اگر کوئی مہمان ہو اور ایسی کیفیت ہوجائے تو میں مہمانوں کو بھی منع کرتا ،کہ خاموش کرانی کی کوشش مت کی جائے۔روتے روتے اچانک رونے کی چیخیں ہنسی میں بدل جاتی ہیں اور پھر والدہ زور زور سے روتے ہوئے ہنستی ہے اور ہنستے ہوئے روتی ہے۔ عمر زیادہ سے زیاد ۵۲ سال ہوگی۔ ایک ڈیڑھ سال سے بولنے میں بھی سخت دشواری پیش آرہی ہے۔ چھوٹا پیشاب کنٹرول میں نہیں۔ انتہائی لاغر اور کمزور ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود بھی روزے رکھتی ہے۔ اس سال میں نے جب طبیعت سخت خراب ہوئی تو تین روزے افطار کروائے۔ حتی الامکان نماز بھی پڑھتی ہے۔ امراض کچھ اس طرح کے ہیں کہ تیمم کرکے نماز اداکرتی ہے۔۔
دوستو!
آپ تصور کیجیے۔۔۔۔۔
آپ تمام بہن بھائی کسی خوشی کے موقع پر جمع ہیں۔ اور پھر اچانک بسترمرگ پر لیٹی آپ کی امی دھاڑے مار مارکر رونا شروع کریں تو آپ پر کیا گزرے گی۔
کیا قیامت کا منظر اسے ہولناک ہوگا۔۔؟
آپ عید کے دن پوری فیملی کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھے ہیں اور آپ کی ماں چیخنا شروع کریں۔
آپ سحری کھارہے ہوں اور اچانک آپ کی اماں جان اتنی سخت چیخ مارے کہ آپ کی روح کانپ جائے۔اور سارے دسترخوان سے بھاگتے ہوئے ان کے گرد جمع ہوجائے۔اور آپ کا معصوم بچہ بھی اس ڈروانی کیفیت کو دیکھ کر خوف کے مارے چلانے لگے۔
آپ سب سو رہے ہوں اور پھر اچانک آپ کی اماں جان زور دار چیخ مارے اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن خیر
ہم سب گھر والوں نے عہد کرلیا ہے کہ والدہ کو کسی صورت محسوس نہیں کرنے دیں گے کہ ان کی وجہ سےہم بھی دکھی ہیں اور پریشان ہیں۔۔۔۔۔۔ہم سب مل کر کبھی ان سے کسی بات پر بحث کرتے ہیں کبھی ان سے پرانے وقتوں کی یادیں تازہ کراتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے بڑی مشکل سے گھر میں ہنسنے ہنسانے کا ماحول پیدا کیا ہے، ڈاکٹری نصیحت بھی یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی والدین کا دکھ برداشت نہیں ہوتا۔۔۔بالخصوص والدہ کا۔۔۔۔۔۔دل چیر کر رہ جاتا ہے۔۔کبھی تو یوں لگتا ہے کہ دل ریزہ ریزہ ہوگیا ہے ۔۔۔۔میں نے مسلسل چار سال عیدین میں نئے کپڑے نہیں پہنے۔
الحمدللہ،! میں بلاناغہ تین سال سے اپنی اماں جی کے ہاتھ چومتا ہوں، ان کی آنکھیں چومتا ہوں اور پھر ان سے تھوک کے حساب سے دعائیں بھی لیتا ہوں۔۔۔۔خود لقمے بنا کر ان کو کھلاتا ہوں، ان کے لیے بازارسے چیزیں الگ لاتا ہوں اور گھر کے لیے لائی ہوئی چیزیں بھی اماں جان سے ہی تقسیم کرواتا ہوں۔والدہ کا بچا ہوا پانی پیتا ہوں۔ہم گھر میں بارہ افراد ہیں، سوائے والدہ کے ہر کوئی کھانے پینے کی اشیاء میں بہانے ڈھونڈتا ہے۔صرف والدہ ہیں جو کسی چیز میں عذر نہیں نکالتی،جو بھی کھلاو، خوشی خوشی تناول کرتی ہے۔میری حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ جب گھر میں ہوں تو خود والدہ کو کھلاوں۔۔۔لیکن میری وائف اور بہنیں مجھ سے سبقت لے جاتی ہیں۔میں جب بھی کسی اچھے کھانے پر بیٹھتا ہوں یا احباب کے ساتھ دعوتوں میں ہوتا ہوں تو کھانے کے پہلے لقمے کے ساتھ مجھے میری اماں یاد آجاتی ہے۔ اگر میزبان بے تکلفی والے ہوں اور میرے گھرکے قریب بھی ہوں تو میں تھوڑا کھانا والدہ کے لیے پیک کرواتا ہوں۔ریسٹورانٹوں کی دعوتوں میں بھی کئی دفعہ اس طرح تھوڑا سا کھانا پیکنگ کرواکر لایا۔ اس سے والدہ بے حد خوشی کا اظہار بھی کرتی ہے۔ محبت کے دستور بھی نرالے ہوتے ہیں۔
دوستو! آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں مبالغہ کررہا ہوں، نہیں واللہ نہیں، میں بہت کچھ چھپابھی رہا ہوں۔۔۔اپنی کیفیت بھی اور والدہ کی بیماری بھی اور اپنے گھر والوں کی حالت بھی۔۔بس کچھ چیزیں راز میں ہی اچھی لگتی ہیں۔
آپ پھر یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آپ اتنے بے غم اور ہنستے ہنساتے کیسی زندگی گزارتے ہیں۔بے خوف و خطر ہر مشکل میں کیوں کود جاتے ہیں،؟ہر ایک سے کیوں پنگلہ لیتے ہیں؟ کیونکر معمولات زندگی پورےکرجاتے ہیں۔۔؟۔۔بے شک
آپ بجا فرماتے ہیں ہیں۔۔لیکن یہ بھی میری والدہ کا ہی طفیل ہے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے ہر ایک سے پنگہ لیا ہوا ہے۔ میں نے سرکار کے ساتھ بھی مخاصمت اپنائی ہوئی ہے۔بہت سے پریشر گروپس کے نشانے پر بھی ہوں، اور پھر ڈیپارٹمنٹلی ناراضگیاں بھی چل رہی ہیں۔۔مگر میں کبھی بھی کمپرومائز نہیں کرتا۔ثواب دارین برگیڈ کے نشتر الگ ہیں،اور مہتم صاحبان الگ کوستے ہیں۔ایک بہت بڑے بیوروکریٹ نے اپنی کرسی گھماتے ہوئے رعب دار انداز میں کہا ’’ آپ ٹھیک نہیں ہونگے‘‘ میں نے انتہائی اعتماد کے ساتھ کہا نہیں سرجی! انہوں نے پھر کرسی گھمائی اور حیرت سے کہا کیوں۔۔۔؟
میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت تک ٹھیک نہیں ہونگابلکہ سب کوللکارتا رہونگا جب تک میری کمزور اور بیمار ماں کےکانپتے ہوئے ہاتھ میری عافیت اور کامیابی کے لیے اٹھتے رہیں گے۔اور اللہ ماں کی دعائیں رد نہیں کرتا، اس کی فطرت کے خلاف ہے۔۔آپ کو حیرت ہوگی، مختصر سی زندگی میں بہت سے خطرناک مراحل سے گزرا ہوں لیکن عافیت کے ساتھ۔ کچھ ایسے کام بھی کرگیا جو بظاہر ناممکن سے تھے۔اللہ نے میری اوقات سے بڑھ کر عزت دی اور شہرت سے بھی نواز اور دینی و دنیا وی کام بھی لیے۔اور لے رہا ہے۔ اور مجھے کسی بھی مشکل سے گزرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا۔۔میں چوٹ کھاتے ہوئے بھی ہنستا ہوں پھر سے مقابل پر وار کر جاتا ہوں۔میرے سینکڑوں دوست یعنی پروفیشنل دوست ایسے ہیں جنہوں نے مجھے تنبیہ و تنذیر کے انداز میں سمجھایا لیکن میں سمجھنے والا کب ہوں۔ان کا اخلاص اور محبت اپنی جگہ، مگرابھی میری ماں زندہ ہے اوریہی سب میری والدہ کی طفیل ہے۔ان کا مہربان سایہ مجھ پر ہے۔ بے شک میرے ابو جان ہر تہجد میں میرا نام لے کر دعا کرتے ہیں لیکن میری چھٹی حس بتارہی ہے کہ میرا اللہ میاں ، میری اماں کے ساتھ میرے معاملات کو غور سے دیکھ رہا ہے اور پھر والدہ کی آنکھیں اللہ کی طرف اٹھتی ہے تب تو اللہ نے شرور سے محفوظ رکھا ہے۔یا اللہ یہ سلسلہ دراز ہو۔۔
تو دوستو!
میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا، شاید دکھ اور پریشانی کی یہ کیفیت آپ سے شیئر بھی نہ کرتا ، مگر پھر جب انسان ڈاکٹروں اور دنیا کے دیگر معالجوں سے مایوس ہوجاتا ہے تو انسان کے پاس سوائے اللہ سے دعا کے کچھ نہیں بچتا۔۔۔ایک کیفیت کے بعد ڈاکٹر بھی مریضوں کو یہی کہاکرتے ہیں کہ اب اللہ ہی بچا سکتاہے دعائیں کی جائے۔۔
رمضان المبارک کے اس آخری عشرے میں ، میں آپ سے اپنی والدہ کی صحت و سلامتی کے لیے دعاوں کی بھیک مانگتا ہوں۔کیا معلوم ! تم میں سے کسی کے ہاتھ قبولیت کے لمحات میں اٹھ جائے اور پھر اللہ میری اماں جان کو صحت کاملہ دے۔۔۔واللہ اگر مجھے اپنا ایک گردہ بیچ کر، یا آنکھ نکال کر فروخت کرکے بھی والدہ کے علاج کرانے کاچانس ہوتا تو میں کبھی بھی دریغ نہیں کرتا۔یہ میرے لیے مسرت عظیم کی با ت ہوتی۔بے شک میں ڈاکٹروں اور اطباء و عاملوں سے مایوس ہوچکا ہوں لیکن میں اللہ کی شفادینے والی ذات سے مایوس قطعا نہیں ہوں۔۔
اے اللہ ! تو سب کچھ دیکھ رہا ہے کیونکہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے۔بے شک تو اپنے برگزیدہ اور گناہ گاربندوں کو آزماتا ہے۔بے شک والدہ کی بیماری اور اس کی خدمت میرے لیے دوجہانوں میں کامیابی کی گارنٹی ہے لیکن مجھ میں اور میری والدہ اور فیملی میں اس ازمائش پر پورا اترنے کی صلاحیت نہیں۔۔۔۔۔۔یا اللہ تو ہی کچھ کر۔تو ایوب علیہ السلام کو کیٹروں سے نجات دے سکتا ہے، ابراہیم ؑ کے لیے آگ کی تپش وجلن ختم کرسکتا ہے۔محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کو عین صحراء میں بے یار و مددگار موت دیکر اسی محمد کو رحمۃ اللعالمین بنا سکتا ہے اور حضرت حسینؑ اور اس کی پوری فیملی کے سرکٹواکر انہیں جنت کا سردار بنا سکتا ہےاور تاقیامت اس فیملی کو مسلمانوں کی محبوب فیملی بنا سکتا ہے تو میری بیمار ماں کو کیوں نہیں شفادے سکتا۔۔۔۔ تو آئیےہم سب مل کر، اسی اللہ سے میری اماں جان کے لیے دعا کریں ۔۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button