جینا دوبھر ہونا محاورہ تو سنا ہوگا آپ نے؟ جی ہاں، ایک وقت تھا کہ گلگت میں مذہبی منافرت کے باعث ایسا ہی ہوا کرتا تھا ۔ جینا دوبھر تھا۔ ہر وقت یہی کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے۔۔۔۔۔۔
آپ بھی حیران ہونگے کہ میں کیا دکھڑا لے کربیٹھ گیا ہوں!
۔کہاں تک سنوگے کہاں تک سنائیں؟
اسے ہماری بدقسمتی کہئیں یا کچھ اور، گلگت بلتستان میں ترقیاتی سکیمیں بھی مذہبی بنیادوں پہ ہی بنتی اور منظور ہو جاتی ہیں، جس باعث کم وقت میں ہی یہ سکیمں اپنی انفرادیت کھو دیتی ہیں۔ یہاں جو بھی کام ہوتے ہیں یا تو وہ ذاتی مفادات کی بنا پر یا ضد اور عداوت کی بنیاد پر یا مذہبی تعصب پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اول تو وہ سکیمیں مکمل ہی نہیں ہوتی ہیں اور اگر تکمیل تک پہنچ بھی جائیں تو یہ سکیمیں مسائل سے دو چار ہو جاتی ہیں ۔
کتنی حیرانی کی بات ہے کہ بارگو بالا اور بارگو پائین، جو صرف تین کلو میٹر کے فاصلے پر محیط اور دریائے گلگت کے دھانے پر واقع ہیں، اس تھوڑے سے فاصلے میں چار پل تعمیر ہوے ہیں، جبکہ پانچویں پل کی منظوری مل چکی ہے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ داستان بیان ہو تو سب کا ڈھول کا پول کھل جائیگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اندرونی کہانی کو اندر ہی رکھ کر بس اسی پہ اکتفا کرنا بہتر ہے۔
اس کہانی میں مذکورہ بالا عوامل شامل ہیں ۔کچھ ممبروں کی ضد کچھ عوامی ضد اور پھر محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی نا اہلی کار فرما ہے۔حال ہی میں بارگو کا پل مکمل ہوا ہے ۔ اس کی افادیت کا ذکر تو خیر کیا کرنا۔۔۔۔ یہ کہنا بہتر ہے کہ یہ پل ایک پیسے کے کام کا نہیں۔ اس پل میں اور چھ دہائی پہلے تعمیر ہونے والے برینو پل میں کوئی فرق نہیں۔ برینو پل سے بھی گاڑی نہیں گزر سکتی تھی اور نئی تعمیر ہونے والے پل سے بھی گاڑی گزرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
سوال یہاں یہ ہے کہ جب اس پل سے گاڑی نہیں گزاری جا سکتی تھی تو اس پل کو یہاں بنایا ہی کیوں ؟ اب اس کیوں کا جواب کون دیگا؟ اس سکیم کو آخر کس نے منظور کیا اور اس کے عزائم کیا تھے اور سکیم دینے والے اور اس کو فنڈنگ کرنے والے کیا اس بات سے بے خبر تھے کہ جس جگہ پل بنایا جا رہا ہے وہاں سے سڑک کا نکالنا محال ہے اور سڑک بنا بھی دی جائے تو پرانی سڑک جو گلگت گاہکوچ کی مصروف ترین سڑک ہے کسی کام کی نہیں رہتی؟
اب اس نا اہلی اور نالائقی کو چھپانا مقصود ہے یا پھر وہی مذہبی بنیاد والی سکیم، بہرحال ۔۔۔۔۔ حال ہی میں مکمل ہونے والے پُل سے چند قدم دور ایک اور پل کے تعمیر کی منظوری دی گئی ہے۔
کیا یہ کرپشن نہیں؟ کیا یہ گلگت بلتستان کے ترقیاتی فنڈ کو خرد برد کرنے کا گھناونا کاروبار نہیں؟ کیا یہ ٹھیکیدار کو فائدہ دینے کا حربہ نہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا عوام کا مطالبہ ان سکیموں کو منظور کرنے والے اور اپنی مفادات کی خاطر قوم و ملک کا فنڈ خرد برد اور اپنی تجوریوں کو بھرنے والوں کو عدالت کے کہٹرے میں لا کر ذمہ داروں سے پوچھ گچھ کرنے کا نہیں ہونا چاہئے؟
۔لیکن افسوس عوام ان مذہبی ٹھکیداروں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے جو صرف اورصرف مذہب ہی کے نام پر کرپٹ لوگوں کو بھی پارسا بنا کر کرسیوں پربٹھا دیتے ہیں۔
کرپشن صرف رشوت لینے کا نام نہیں اس میں دیگر برائیاں بھی آتی ہیں ۔مثلا شرابی، چرسی ،جواری، اور بہت سارے ۔مطلب آپ سمجھ گئے ہونگے ۔آخر مذہب اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک و قوم کا پیسہ اس بے دردی سے لٹانے کا سلسلہ کب بند ہوگا؟ ہمارے اندر اجتماعی سوچ کا عنصر کب جاگے گا، ترقیاتی کاموں میں یہ غلیظ حرکت ہماری کس سوچ کی نشاندہی کرتی ہے؟