کالمز

ریاستی عملداری اور ڈپٹی کمشنر (حصہ دوئم)

سید عبدالوحید شاہ
(پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس)

سن ۱۷۷۲ میں بنگال کے نو تعینات گورنر وارن ہیسٹنگز نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ، ڈسٹرکٹ کلکٹر کا عہدہ قائم کیا ۔اس عہدے کے قیام کا بنیادی مقصد محصولات و مالیہ کی وصولی ،امن عامہ کا قیام اور ریاستی ترجمان کے طور پر حکومتی و ریاستی احکامات کی تعمیل و تکمیل کے لئے راہ ہموار کرنا تھا ۔ایک عشرے بعد ہی۱۷۸۶میں لارڈ کارن ویلیز نے اس عہدے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے اس میں بڑی اصلاحات لائیں ۔بنا بر یں انہیں انڈین سول سروس کا خالق کہا جاتا ہے ۔یہ پہلی بار تھا کہ لارڈ کارن ویلیز نے محسوس کیا کہ معمولی سی تنخواہ کے ساتھ اتنی اہم ذمہ داری سونپنا در حقیقت سول سروس کو بد دیانتی اور بد عنوانی کی طرف راغب کرنا ہے ، لہٰذا اس نے سول سروس کی مراعات و تنخواہ میں اس قدر اضافی کیا کہ بر صغیر میں اس وقت سب سے بھاری تنخواہ سول سرونٹس کی قرار پائی ۔نتیجتاّّقابل ترین افرادی قوت سول سروس کی طرف کھنچتی چلی آئی ۔۱۸۵۳ تک تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے کورٹ آف ڈائیریکٹرز ہی افسران کا انتخاب کرتے تھے تاہم ۱۸۵۳ کے ایکٹ کے نافذالعمل ہونے کے بعد باقاعدہ مقابلے کے امتحان کے ذریعے سے افسران کا انتخاب ہونا شروع ہوا اور اسی ایکٹ کے تحت پہلی بار ہندوستانی باشندوں کو بھی اس مقابلے میں بیٹھنے کی اجازت ملی ۔یوں ۱۸۶۳ میں ایس این ٹیگور پہلا مقامی آئی سی ایس آفیسر بنا۔سول سرونٹس نے جس محنت اور جانفشانی سے ریاستی امور کو نبھایا اس پر دو سو سالہ تاریخ شاہد ہے اور بلا شبہ اسے ریاست کا سٹیل فریم کہا گیا ۔۱۹۴۹ میں سردار پٹیل نے ریاست کے ابتدائی ڈھانچہ کی تشکیل میں آئی سی ایس کے کر دار کو ان سنہری لفظوں میں سراہا ’’خودمختاری کے ان دو سالوں کے اندر آئی سی ایس نے شفاف انداز سے ملک چلانے میں مدد کی اور یہ کام ان کے بغیر ممکن بھی نہ تھا ۔سول سروس ملک کے مستقبل کے لئے بہت ہی اہم کردار ادا کرے گی ‘‘۔ انڈیا میں آئی سی ایس کی پیرو کار بعد از خودمختاری آئی اے ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس )بنی جبکہ پاکستان میں کچھ ابتدائی سالوں کے لئے اسی طرز پہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس بنی ، لیکن فوراّّ بعد ہی اسے سول سروس آف پاکستان (سی ایس پی)کا روپ دھارنا پڑا ۔

۱۹۷۳ ؁ میں ذوالفقار علی بھٹو کی سول سروس اصلاحات نے سول سروس کے بنیادی ڈھانچے کو ہی بدل ڈالا ۔یوں سول سروس کے نمائندہ گروپ کو ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) کا نام دیا گیا اور جو کہ ۲۰۱۰ کے عشرے تک رائج رہا تا وقتیکہ گیلانی حکومت میں اسے بدل کر پاکستان ایڈمنسٹریٹوسروس (پی اے ایس) کا نام دیا گیا ۔اس نمائندہ گروپ یا سٹیل فریم آف سٹیٹ کو امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ جس قدر زک پہنچانا ممکن تھا بلا روک ٹوک کے پہنچائی گئی ۔عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کے نام پہ اور بالآخراختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے شورو غوغا کے بیچ میں ریاست کی اس واحد ، مربوط اور تاریخی انتظامی شناخت کو مسخ و معدوم کر دیا گیا ۔

قطع نظر اس بحث سے اور اس کے دلائل سے ۔آج کل سیر و سیاحت کی خاطر جو رجحان پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت بلتستان اور کشمیر کی طرف پایا جاتا ہے وہ بے مثل ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا پاکستان شمالی سمت کی طرف سمٹ چلا ہے ۔گذشتہ روز جب ہم ناران کاغان سے ہوتے ہوئے گلگت پہنچے تو بابو سر ٹاپ پر پہنچ کر ایک لمحہ کو اس تاریخی پاس کے قریب رکے ۔یہاں آپ کو جلی حروف میں ایک بڑے سے بورڈ پر لکھا نظر آئے گا کہ یہ درہ (پاس)ریاست کشمیر کی طرف جانے والے قافلوں کی عمومی گذر گاہ تھی ۔چند ہی گھنٹوں کی مسافت پر وادی نیلم کی خوبصورت تحصیل شاردہ واقع ہے جو کہ شین مت دور میں علمی و ادبی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اور ابھی تک ایک بدھ یونیورسٹی کے آثار موجود ہیں ، البیرونی اپنی کتاب الہند میں اس کا باقاعدہ تذکرہ کر چکے ہیں ۔بہرحال بابو سر ٹاپ سے آپ نیچے اتریں گے تو شائد آپ کو کوئی ہرا بھرا سبزہ نظر نہ آئے۔محض چلاس کی سنگلاخ وادی آپ کو خوش آمدید کہے گی اور لمحہ بھر کو آپ ساکت و جامد ہو جائیں گے کہ آج سے نصف صدی قبل یہاں کیا انسانی بودوباش ہو گی اور زندگی کس قدر تلخ و مشکل ہو گی ۔مگر ایک لمحہ کا توقف کیجیے ۔زرا ایک صدی پیچھے جائیے۔مزید ایک صدی بڑھا لیجیے ۔ یا نشان زد کر لیجیے یہ ۱۸۳۶ ؁ ہے ، یعنی آج سے پونے دو صدی قبل کی بات ہے ۔بابو سر ٹاپ کی اترائی ختم ہونے پر دائیں طرف ایک انگریز افسر اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ اپنا دفتر قائم کرتا ہے ۔لیویز کا نظام منظم کرتا ہے اور ان کے آمدو رفت اور ذرائع رسل و رسائل کی خاطر گھوڑوں کے ایک اصطبل کی بنیاد ڈالتا ہے ۔میں ورطہ حیرت میں ہوں کہ اس بیاباں و ویراں میں یہ شخص اس دور میں آخر کس کام کی تکمیل کے لئے چلہ کشی کر رہا ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ یہ ایک انگریز افسر جو کہ حقیقی معنوں میں سات سمندر پار سے وارد ہوا ہو اور بلاشبہ اس سلطنت کا ستون ہے کہ جس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا ۔پیچ در پیچ اترائیاں اتر کر مین سڑک کی دائیں جانب اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کا دفتر ،گھر اور خستہ حال اصطبل دعوت نظارہ دے رہا ہے ۔میں اسسٹنٹ کمشنر ظہور مری (پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس)کی وساطت سے اس صدیوں پہ محیط آثار کے زیر سایہ کچھ دیر سستانے جا پہنچا۔چند کمروں پر مشتمل یہ چوبی مکان ، ایک صحن اور ساتھ ہی سبزہ زار ریاست سے لگاو‘ اور ریاستی اہلکاروں کی داستان عزم و ہمت کی بھرپور کہانی تھا کہ جس بناء پر تاج برطانیہ مشرق و مغرب کا مالک بن بیٹھا تھا ۔انگریز افسر کا نظم و نسق ، دور اندیشی اور موجودہ پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری کے اوپر اس قدر اعلیٰ انتظامی افسر کی تعیناتی ، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کس طرح منظم ریاستیں اپنے اداروں کو مقتدر ، با اختیاربنا کر اور اہم مقامات پر متعین کر کے صرف اور صرف ریاستی مفاد کی سرپرستی کرتی ہے اور اسی کے بل بوتے پر دور رس پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتی ہیں ۔ریاست میں درست آدمی کا درست مقام کے لئے انتخاب اورمناسب اختیارات کا مالک بنانا اور پھر بلا رو و رعائت کار سرکار کے لئے مناسب عملی آزادی فراہم کرنا در اصل خلاصہ ہے اس تمام بحث کا ۔ یہاں تاریخی دبیز تہوں کو چاک کئے دل ہی دل میں ریاست قلات کے نظم و نسق اور بابو سر ٹاپ کے نیچے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کا تقابل کر رہا تھا ۔موجودہ دور کے کم و بیش چار اضلاع کو وہاں (بلوچستان)انگریز سرکار صرف ایک نائب سے چلا لیتی ہے مگر یہاں ایک بھرپور (انگریز)اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی ضرورت محسوس کیوں ہوتی ہے ۔ ابھی تک تو علامہ اقبال نے بھی یہ پیش گوئی نہیں کی تھی کہ ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے گراں خواب چینی سنبھلنے لگے، ہاں مگر گریٹ گیم اور روسی ریچھ کا خطرہ یا وہم آہستہ آہستہ برطانوی سرکار کو کھائے جا رہا تھا ۔

انگریز دور کی ریاستی عملداری کا حصہ لیویز فورس ابھی تک وہاں موجود ہے جسے فعال بنانے میں اسسٹنٹ کمشنر خرم پرویز (ہاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس)اور اسسٹنٹ کمشنر ظہور مری(ہاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس)کی کاوشیں قابل تعریف ہیں ۔یہی لیویز کے چند اہلکاروں کی مدد سے ان اسسٹنٹ کمشنر حضرات نے پورے دیامر بھاشا ڈیم کی زمیں بغیر کسی جھگڑا فساد کے خریدی اور ریاستی عملداری قائم کی وہ مثال پیش کی کہ وہ دور رفتہ کی یاد دلانے کو کافی ہے ۔۲۰۰۱ کی مشرف ’’اصلاحات ‘‘ سے خوش قسمتی سے یہ علاقے باقی بچے اور نہ کشمیر و اسلام آباد کے علاقہ جات ان اصلاحات کی دست برد میں آئے ۔جہاں آج بھی ڈپٹی کمشنر ریاستی عملداری کا علم بلند کئے ہوئے ہر کس و نا کس کو جواب دہ ہے اور ریاست کا چہرہ ہے ۔امید ہے کی ارباب اختیار ان علاقوں میں انتظامیہ کی کارکردگی اور ریاستی عملداری کا عملی ثبوت دیکھ کر دور اندیشی اور اجتماعی مفادات کی خاطر ادارہ جاتی چپقلش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست کے اس ستون اور ذمہ دار ادارہ کی بحالی کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button