کالمز

کشمیر کی آزادی صرف دس برس کی دوری پر؟

عثمان حیدر

کیا بھارت کے ہاتھوں سے کشمیر نکل رہا ہے یہ ہے وہ سوال جس پر عالمی حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین غور کر رہے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کشمیر پر مزید قبضہ برقرار رکھنا بھارت کے بس میں نہیں ۔کشمیر تو بھارت کے ہاتھوں سے بس نکل ہی رہا ہے لیکن دوسری طرف عالم یہ ہے کہ بھارتی ترنگے کے پھٹنے کا بھی وقت قریب آچکا ہے ،بھارت میں درجنوں تحریکیں علیحدیگی کے حق میں چل رہی ہیں ،کشمیر سے ناگا لینڈ تک بھارت کے مظالم کے خلاف علم بغاوت بلند ہو چکا ہے ایسے میں صاف نظر آرہا ہے کہ کشمیر تو بہر حال بھارت سے آزادی لینے کے قریب آچکا لیکن رہے سہے بھارت بھی ٹکڑوں میں بٹنے والا ہے ،کشمیر میں اس وقت جو صورحال ہے اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کی نوجوان نسل اب آزادی سے کم کسی بھی آپشن پر سمجھوتہ کرنے کیلئے کسی بھی صورت تیار نہیں ،برہان وانی کی شہادت کے بعد تو لاکھوں برہان وانی کشمیر میں پیدا ہو چکے ہیں ،برہان وانی کی شہادت کو ایک سال ہو چکا ہے پہلی پرسی پر کشمیر کے نوجوانوں کا جذبہ حریت بھارت کے ا8طالم سے سرد نہیں ہو سکتا ہے۔بھارتی بربریت کی بھینٹ چڑھنے والے حریت کمانڈر برہان وانی کی پہلی برسی پر حریت رہنماؤں نے احتجاجی کیلنڈر تیا کر لیا ہے، 13 جولائی تک برہان وانی اور دیگر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بڑی ریلیاں نکالی جائیں گی، جبکہ بھارتی فوج نے حریت رہنماؤں یاسین ملک، میرواعظ عمرفاروق اور سید علی گیلانی کو گھروں میں نظر بند کردیا ہے۔

8جولائی کو برہان وانی اور 13جولائی کو 1931 کے شہید کشمیریوں کو خراج عقیدت پیش کیاجائیگا۔ 86 سال پہلے ڈوگرہ فوج نے سری نگر کی سنٹرل جیل پر خونی کھیل رچاتے ہوئے 22 کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا۔ کشمیری عوام حق خود ارادیت اور آزادی کے حصول کی خاطر جانوں کا نذرانہ دینے والے ان حریت پسندوں کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اس حوالے سے وادی میں بھارتی جبر و تشدد کے خلاف اور آزادی کے حق میں زبردست مظاہرے کئے جائیں گے۔بھارتی فوج نے گزشتہ سال 8 جولائی کوحریت کمانڈر برہان وانی کو شہید کردیا تھا۔ جس کے بعد،وادی میں احتجاج کے ساتھ آزادی کی ایک نئی لہر شروع ہو چکی ہے، حق خودارادیت کے حصول اور ریاستی ظلم کے خلاف سڑکوں پر آنے والے نہتے کشمیریوں کی آواز اور جذبہ آزادی کو کچلنے کے لئے بھر پور طاقت کا استعمال کیا جا رہاہے۔ بھارتی فورسز بربریت اور سفاکانہ مظالم ڈھاتے ہوئے اب تک 100 سے زائد کشمیریوں کو شہید اور سینکڑوں کو پیلٹ گن کی فائرنگ سے بینائی سے محروم کر چکی ہے۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے صرف دنیا بھر کے ماہرین نہیں بلکہ بھارت کے دانشور بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اب بھارت کو کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں اورپانچ لاکھ سے زیادہ سکیورٹی اور فوجی اہلکاروں کی موجودگی میں کشمیر کا انڈیا کے ہاتھوں سے نکل جانا بعید از قیاس ہے۔ انڈیا کے معروف کالم نگار شیکر گپتا کا کہنا ہے کہ کشمیر کی جغرافیائی سرحدیں محفوظ ہیں لیکن انڈیا نفسیاتی اور ذہنی لحاظ سے کشمیر کھو رہا ہے۔ سری نگر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں صرف سات فیصد لوگوں کا ووٹ ڈالنا اس امر کا آئینہ دار ہے کہ کشمیر میں انڈیا کی آہنی گرفت برقرار ہے لیکن لوگ ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔

بھارتی خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور کشمیر بالکل بھی نہیں ہے۔ اور اس وقت جو حقیقت ہے وہ ہے نوجوان میں غصہ اور بھارت کے خلاف لوگوں کی بغاوت۔

لہٰذا کشمیر میں جو تبدیلی ہے وہ انڈیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ فوجی حکام بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ حالت انتہائی سنگین اور نازک ہے۔مقامی نوجوان جو شدید احساس محرومی کا شکار ہیں اور کسی حد تک بے پرواہ بھی وہ اب انڈیا کے خلاف علیحدگی کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ کشمیر میں کُل آبادی کا 30 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت شدید غم و غصے اور ابہام کا شکار ہیں۔اسی طرح بھارت کی سابق مذاکرات کار برائے جموں وکشمیر پروفیسر رادھا کمارنے کہا ہے کہ اگلے دس سال میں کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال دن بدن خراب ہورہی ہے۔ پروفیسر رادھا کمار نے ان خیالات کا اظہار کشمیر پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اگر سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو اگلے دس سال میں کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ جس طرح آج کشمیر کی صورتحال خراب ہے پہلے کبھی اس طرح نہیں تھی۔ حکومت کام کرتے ہوئی نظر نہیں آ رہی اورصورت حال کو ٹھیک کرنے کے لیے نہ ہونے کے برابر کام کیا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار جب کشمیر کے حوالے سے پیشقدمی ہوئی تھی جس میں پاکستان اور کشمیریوں کو مذاکرات کی میز پر لایاگیا تھا وہ اس وقت ہوا جب جنرل پرویز مشرف پاکستان کے صدر تھے اور سول سوسائٹی بیک چینل پر بھارت اور کشمیریوں کیساتھ مذاکرات کر رہی تھی اور پرویز مشرف پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔

بھارت کے اندر سے بلند ہوتی ہوئی دانشوروں کی آوازوں پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کشمیر پر مزید اپنا فوجی طاقت سے تسلط برقرار رکھنا اب بھارت کا روگ نہیں رہا لہذا بھارت کے لئے اسی میں عافیت ہے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لے اور کشمیر سے نکل جائے اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقعہ دے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button