کالمز

گلگت بلتستان : کالا قانون اور کالے کوٹ کی جدوجہد

قسط اول

تحریر : اشفاق احمد ایڈوکیٹ .

گلگت بلتستان کے سینئر قانون دان محمد عیسٰی کے بقول یہ قیام پاکستان سے دس سال قبل کا زکر ہے جب مارچ 1937 کو گلگت بلتستان کی ایک خوبصورت وادی نوگام استور میں ان کی پیدائش ہوئی – اس وقت بچے بہت کمسنی میں نہیں بلکہ کافی بڑی عمر میں سکول جاتے تھے انہوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی پھر مڈل سب ڈویژن استور سے پاس کیا. تب استور میں مہاراجہ کشمیر کی حکومت تھی اور ایف اسی آر نامی کالا قانون یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کا نام و نشان تک نہیں تھا-

ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ انڈس کے مشرق کی طرف انگریزوں کی حکومت ہے جبکہ دریائے انڈس کے مغرب کی طرف ڈوگروں کی حکومت ہے تب اس خطہ بے آئین میں باقاعدہ مروّجہ قوانین مثلاً فوج داری اور دیوانی قوانین موجود تھے –

مہاراجہ کشمیر کے وہی قوانین بعد میں بھی جاری رہے بلکہ اب تک وہی قوانین ترامیم کے ساتھ لاگو ہیں سواۓ باشندہ ریاست قانون کے جس کو حکومت پاکستان نے معطل کیا اور رنجیت سنگھ کے دور کے خالصہ سرکار نامی قانون لاگو کیا گیا جس کا مقصد یہاں کے عوام کو ان کی مشترکہ ارضیات, چراہ گاہوں, معدنیات اور جنگلات کے حقوق سے محروم کرنا ہے.

مڈل جماعت پاس کرنے کے بعد جب میں میٹرک کلاس میں پڑھنے گلگت آیا تو تب تک پاکستان وجود میں آیا تھا اور گلگت بلتستان کی انتظامی کنٹرول حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں ایف سی آر نافذ کیا گیا – حالانکہ اس سے قبل یہاں وزیر وزارت ہوتا تھا ریونیو, فوجداری اور دیوانی عدالتوں میں ججزز مقرر تھے –

سال 1935 میں گلگت لیز ایگرمنٹ کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ سے 60 سال کے لئے گلگت ایجنسی لیز پر لینے کے بعد برٹش انڈیا نے مقامی اہم افراد کے زریعے ان قوانین کے ساتھ ساتھ ایف سی ار بھی یہاں لاگو کیا تھا -اگرچہ مقامی رواجی قوانین بھی رائج عمل تھے لیکن ان قوانین پر ایف سی آر کا قانون حاوی تھا –

معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستانی انتظامیہ نے پورے گلگت بلتستان پر ایف سی آر کا قانون نافذ کیا تھا حالانکہ ڈوگرہ حکومت میں یہاں ایف سی ار صرف ان علاقوں پر لاگو تھا جن کو انگریزوں نے مہاراجہ سے گلگت ایگرمنٹ کے تحت لیز پر حاصل کیا تھا حالانکہ اس سے قبل یہاں وزیر وزارت ہوتا تھا ریونیو, فوجداری اور دیوانی عدالتں میں ججزز مقرر تھے –

لیکن ایف سی آر کے کالا قانون کے نفاذ کے بعد عوام کو تمام تر بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا –

بہت ہی معمولی سی باتوں پر بھی ایف سی آر کے حکام مقامی لوگوں کو بغیر ٹرائل کے جیل میں قید کرتے تھے ایک طرف حکومت بغیر معاوضہ کے غریب لوگوں سے بیگار لیتی تھی تو دوسری طرف راجے, میر اور حکومت عوام سےزمینوں پر مالیہ بھی لیتے تھے چنانچہ مہاراجہ کے دور سے بھی بدتر صورتحال تھی –

یہ کالا قانون 1972 تک جاری رہا اور بلا آخر پاکستانی حکام کو ایف سی ار اس وقت ختم کرنا پڑا جب 1971 میں ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف گلگت بلتستان میں باقاعدہ تحریک شروع ہوئی -راجگی نظام اور ایف سی آر کے خلاف تحریک کی بنیادی وجہ ظلم و جبر کا نظام تھا

اس پس منظر میں 1970 میں تنظیم ملت کی بنیاد رکھی گئی –

تحریک ملت کی بنیاد مرحوم جوہر علی خان ایڈووکیٹ اور دیگر چند وکلا نے رکھی تھی جن میں عیسٰی ایڈووکیٹ الطاف وکیل, مرحوم سیکرٹری سعید صاحب شیر ولی ایڈووکیٹ مرحوم و سابق ڈسٹرکٹ جج مصطفی صاحب اور مالک شاہ سابق چیئرمین میونسپل کمیٹی گلگت نے مل کر بنائی تھی –

ایف سی آر کے نو آبادیاتی نظام کے تحت گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کا کوئی تصور تک نہیں تھا نہ ہی یہاں کوئی انتخابات ہوتے تھے نہ ہی کوئی اخبار ہوتا تھا یہ علاقہ ایک بلیک ہول کی مانند تھا-

جب یہاں کےپڑھے لکھے نوجوان پاکستان کے کسی اخبار میں بیان دیتے تھے تو ان کے خلاف ایف سی ار حکام نوٹس لیکر انہیں سزائیں دی جاتی تھی –

اس طرح کا ایک اہم واقعہ اس وقت پیش آیا جب شیرولی ایڈووکیٹ پونیالی اور فصْل الرحمان عالمگیر نے اخبار میں ایک بیان دیا کہ یہاں قحط سالی ہے اور لوگ بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے اس خبر پر ایف سی آر کے حکام ناراض ہوۓ اور ان کو جیل میں قید کر لیا. اس پر عوام نے شدید احتجاج کیا –

مقامی اہم افراد کے زریعے انگریزوں نے ایف سی ار یہاں لاگو کیا تھا لیکن دیگر قوانین بھی چلتے تھے مگر ان قوانین پر ایف سی آر حاوی تھا ایف سی آر کا یہ کالا قانون 1972 تک جاری رہا اور بلا آخر پاکستانی حکام کو ایف سی کا قانون اس وقت ختم کرنا پڑا جب یہاں 1971 میں ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع ہوئی –

تحریک ملت کی بنیاد مرحوم جوہر علی خان ایڈووکیٹ دیگر چند وکلا نے رکھی تھی جن میں عیسی ایڈووکیٹ الطاف وکیل, مرحوم سیکرٹری سعید صاحب شیر ولی ایڈووکیٹ مرحوم و سابق ڈسٹرکٹ جج مصطفی صاحب اور مالک شاہ سابق چیئرمین میونسپل کمیٹی گلگت نے مل کر بنائی تھی –

تنظیم ملت کا بنیادی منشور 6 نقاط پر مشتمل تھا.

1.گلگت بلتستان بشمول چترال اور شناکی کوہستان کو ملا کر ایک صوبہ بنایا جائے

2-راجگی اور میری نظام کا خاتمہ کیا جائے جو کہ اس وقت صرف ہنزہ نگر و غذر میں برقرار تھی باقی علاقوں میں نہیں تھی.

3-ایف سی آر کا خاتمہ

4-مالیہ و بیگار کا خاتمہ –

جو کہ پورے گلگت بلتستان میں لاگو تھا راجے اور میر وغیرہ کے علاوہ حکومت بھی مختلف ناموں سے مالیہ لیتی تھی اس کے علاوہ حکومت لوگوں سے بلا معاوضہ بیگار بھی لیتی تھی اور

زمینوں کے رقبہ تعدادی کے حساب سے ٹکس لیتے تھے.

واصْع رہے عبوری صوبہ کی صورت میں زمینوں پر دوبارہ ٹکس کا قانون لاگو ہو سکتا ہے..

5- جمہوری قوانین کا اطلاق اور محکمہ جات کے قیام کا مطالبہہ

6- لوگوں کو اپنے منتخب نمائندوں کے زریعے اپنی اسمبلی کے قیام .

واضع رہے اس سے قبل گلگت بلتستان میں سیاست پر مکمل پابندی تھی نہ ووٹ دینے کا حق تھا نہ ہی منتخب نمائندوں پر مشتمل کوئی اسمبلی تھی –

گلگت بلتستان کی قومی شناخت کو بلکل مسخ کر دیا گیا تھا یہاں تک گلگت بلتستان کا نام ناردرن ایریاز رکھا گیا تھا –

تنظیم ملت نے جلسہ جلسوں میں اپنا منشور عوام کو سمجھایا اور عوام کو ایف سی ار اور راجگی نظام کے خلاف متحرک کیا اسی دوران ہائی سکول گلگت کا واقعہ پیش آیا جس نے گلگت کی تاریخ بدل کر رکھ دیا –

واقعہ اس طرح پیش آیا کہ گلگت اسکوٹس کے کمانڈنٹ کی زوجہ نے سکول کی پرنسپل جو کہ ایک میجر کی بیوہ تھی اس کو گالیاں دی کیونکہ اس کی دو بیٹیاں جو آٹھویں اور ساتھویں کلاس میں زیر تعلیم تھی دونوں امتحان میں فیل ہوئے تھیں اور اس پر کمانڈنٹ کی بیوی نے پرنسپل و دیگر لیڈی ٹیچرز سے بد تمیزی کی اور یہ دھکی دیکر دباؤ ڈالا کہ اس کی بچیوں کو پاس کرو بصورت دیگر سکاوٹس تمہارے اوپر چڑھاوں گی –

-پھر وہ پرنسپل خاتون تنظیم ملت کے رہنماؤں کے پاس شکایت لے کر پہنچی تو اس پر تنظیم ملت نے احتجاج کی کال دی اور جب عوام نے احتجاج شروع کیا تو انتظامیہ نے رات کو تنظیم ملت کے چھ نمایاں لیڈران کو گرفتار کرکے گلگت سونی کوٹ جیل میں قید کیا اس پر عوام مشتعل ہوۓ اور جوہر علی خان ایڈووکیٹ کی کال پر گلگت کے عوام نے صبح سخت احتجاج شروع کیا بسین سے لیکر سکْوار تک گلگت کے تمام عوام بشمول خواتین نے سخت احتجاج شروع کردیا اور اپنے رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا-

جب انتظامیہ نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کیا تو مشتعل عوام نے پہلے تو گلگت بازار تھانے پر دھاوا بول دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انتظامیہ نے ان کے رہنماوں کو تھانے میں بند کیا ہوگا. لیکن جب تھانہ میں اپنے رہنماؤں کو نہ پایا تو عوام کا مشتعل ہجوم نے

سونی کورٹ جیل کا رخ کیا اور جیل پر حملہ کیا اور جیل توڑ کر اپنے لیڈروں کو رہا کروایا اس دوران پولیٹیکل ایجنٹ اے ار صدیقی نے گلگت سکاوٹس کے جوانوں کو عوام پر گولیاں چلانے کا حکم دیا لیکن انہوں نے ہوائی فائرنگ کرکے عوام کو منتشر کرنے کی کوشش کیا اسی اثناء پولیٹیکل ایجنٹ نے ایک سکاؤٹ جوان سے بندوق چھین کر مظاہرین پر ڈائریکٹ گولیاں چلائی نتیجتاً ایک آدمی شہید اور دس افراد زخمی ہوئے-

مگر اس کے باوجود عوام کے سمندر نے جیل توڑ کر اپنے لیڈران کو رہا کروانے میں کامیاب ہوئے اور ان پر پھول نچھاور کئے -بقول محمد عیسٰی ایڈووکیٹ ان میں آر- ای محمد علی, شیر ولی ایڈووکیٹ پونیالی محمد لطیف, الطاف ایڈووکیٹ, عیسٰی ایڈووکیٹ خود, سعید صاحب, غلام محمد المعروف گلو بٹ, کریم خان سرفرست تھے- انتظامیہ ان لیڈران کو چار دنوں تک دوبارہ گرفتار کرنے میں ناکام ہوئی پھر گلگت میں کرفیو نافذ کر کے دوبارہ ان لیڈران سمیت 100 دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا.

جیل توڑنے والی احتجاجی ریلی کی قیادت کرنے

والے لیڈر جوہر علی خان کو بھی جیل میں ڈالا گیا جو تاریخ گلگت میں قائد گلگت کے نام سے بھی مشہور ہیں-

جوہر علی خان ایڈووکیٹ اور ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ صوبیدار صفی اللہ بیگ اور بارگو سے تعلق رکھنے والے صوبیدار ایوب ستارہ جرات کے علاوہ گلگت کا ایک مذہبی عالم دین جس کا تعلق وادئ بگروٹ سے تھا ان کے ساتھ کل چودہ آدمیوں کو گلگت جیل میں ہی 20- 25 سال سزا سنا کر ہری پور جیل منتقل کیا گیا جن میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے لیڈر امان اللہ خان بھی شامل تھے جو ایک تقریر کے جرم میں گلگت جیل میں قید تھے ان کو بھی ہری پور جیل منتقل کر کے وہاں قید کیا گیا جبکہ دیگر اہم قومی قائدین جن کو گلگت کے عوام نے گلگت جیل توڑ کر قید سے آزاد کرایا تھا ان کو دوبارہ گرفتار کرکے پہلے گلگت جیل میں رکھا پھر انہیں گلگت سکاوٹس نے گاڑیوں میں ڈال کر گلگت جیل سے لے جا کر گوپس قلعہ میں قید کیا جہاں انہوں نے چھ ماہ قید برداشت کی.

اور اسی اثناء کراچی میں مقیم گلگت بلتستان کے طلباء نے اپنے رہنماؤں کی رہائی اور نوآبادیاتی قانون ایف سی آر اور راجگی نظام کے خلاف زبردست جدوجہد کی وہ زوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن سے بھی ملے اور دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ حکومت میں آکر گلگت بلتستان کے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرینگے –

جاری ہے..

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button