کالمز

زبانی امتحان کے نمبر 

زبانی امتحان کوا نگریزی میں انٹرویو کہتے ہیں یہ 100 نمبر کا بھی ہوتا ہے 200نمبر کا بھی ہوتا ہے تحریری امتحان میں 80 فیصد نمبر لینے والا زبانی امتحان میں 28 فیصد نمبر لے لیتا ہے اس کے مقابلے میں جس امید وار نے تحریری امتحان میں 62 فیصد نمبر لیا اس کو زبانی امتحان میں 90 فیصد نمبر دیئے جاتے ہیں چار ماہ چھ ماہ بعد پتہ چلتا ہے کہ انٹرویو میں فیل ہونے والا غریب والدین کا بیٹا تھا اور 90فیصد نمبر لینے والا بڑے سرمایہ دار ٹھیکہ دار ،بزنس مین یا جاگیر دار کا بیٹا تھا گویا زبانی امتحان ایک چھلنی ہے جس کے ذریعے غریب کا راستہ روک لیا جاتا ہے مینجمنٹ سائنسز کے ایک سکالر گذشتہ 5 سالوں کی زبانی امتحانات پر کیس سٹڈیز کا دلچسپ سلسلہ شروع کیا ہے ان کیس سٹڈیز کو ہیومن ریورس یعنی افرادی قوت کا شعبے میں کورس کی کتاب کے طور پر پڑھایا جائے گا چند مثالیں بڑی دلچسپ ہیں مثلاً2015 میں پی ایم ایس کے امتحان کا نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ چار اضلاع کے اُمیدوار کامیاب ہوئے ،میرٹ پر بھی ان اضلاع سے لوگ آئے ،زونل کوٹہ بھی انہی اضلاع کو ملا باقی 21 اضلاع سے کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا تحقیق سے پتہ چلا کہ انٹرویو پینل میں انہی چار اضلاع کے بزرگ ترین حکام بیٹھے تھے ’’اندھا بانٹے ریوڑ ھیاں ہیر پھیر اپنے کو پے ‘‘سکالر نے 10 امیدوار وں کا ریکارڈ کھنگالا ہے ان امیدواروں نے یونیورسٹی سلیکشن بورڈ کا مشکل مرحلہ آسانی سے طے کیا گریڈ 18 میں بھرتی ہوئے لیکن پی ایم ایس کے زبانی امتحان میں ان کو 200 میں 56یا 48 نمبر دیکر فیل کیا گیا ان کی شخصیت کا جائزہ نہیں لیا گیا ان کی کسی بھی مہارت کا امتحان نہیں لیا گیا روانی سے انگریزی بولنا ان کے کسی کام نہیں آیا انٹر پرسنل سکل کا ان کو فائدہ نہیں ہوا کمیونی کیشن سکل نہیں دیکھا گیا باپ کا نام اور ڈومیسائل دیکھ کر ان کو مسترد کیا گیاچار ایسے اُمیدوار وں کا جائزہ لیاگیا ہے جنہوں نے جی آر ای میں 300سے اوپر سکور کیا فل برائٹ سکا لر شپ ان کو ملا امریکہ کی بہترین یو نیورسٹی میں ان کو داخلہ مل گیا کمیشن کا تحریری امتخان ان نوجوانوں نے 85فیصد سے ذیادہ نمبروں سے پاس کیا لیکن انٹرویو میں ان کو 200میں سے 38یا 42نمبر دیدے گئے اس طرح پاکستان اور خیبر پختونخوا کے بڑے ادارے پرسے ان کا اعتماد اُٹھ گیا و ہ صوبے کے اندر اپنے مستقبل سے مایوس ہو گئے ظاہر ہے 26یا 28سال کا نوجوان اپنے باپ کا نام یا اپنا ڈومیسائل تبدیل نہیں کر سکتا وہ سوچتا ہے کہ غریب ماں باپ کی اولاد ہونا اور قوت خرید نہ رکھنا خیبر پختونخوا میں کتنا بڑا جرم سمجھا جا تا ہے سکا لر نے تحصیلدار وں ،پولیس سب انسپکٹر وں ، سب انجینئروں ،نرسوں اور ڈاکٹروں کے زبانی امتحانات کا جائزہ لیا ہے سکالر نے لکھا ہے کہ انٹرویو پینل پر وحشت طاری رہتی ہے کاروباری پریشر ہو تاہے اس لئے ہر اُمید وار کی تصویر ان کو الٹی نظر آتی ہے شاعر کہتا ہے ۔

مجنوں نظر آتی ہے لیلٰی نظر آتا ہے

وحشت میں ہر نقش اُلٹا نظرآتا ہے

ایم بی بی ایس میں کوئی سبلی نہیں دی اور 6ڈاکٹروں نے ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان 80فیصد نمبروں سے پاس کیا کمیشن کے انٹرویو میں ان کو 42 نمبر ملے جن اُمید واروں نے تین تین سپلیمنٹری دیکر ایم بی بی ایس کیا تھا ان کو 70فیصد سے ذیادہ نمبر دیکر پاس کیا گیا حالانکہ یہ اُمیدوار ایف سی پی ایس میں دوبارہ فیل ہوئے تھے کمیشن کے سامنے اکیڈمکس کا کوئی معیار نہیں ہے اس کے مقابلے میں محکمانہ سکروٹینی کے ذریعے ایڈہاک اور کنٹر یکٹ بنیادوں پر بھر تیوں کا طریقہ ذیادہ شفاف،معقو ل اور میرٹ پر مبنی ہے اکیڈمکس کے نمبروں کو حساب کر کے قابل ترین اُمیدواروں کا چناؤ کیا جاتاہے زبانی امتحان کے بہانے سے ڈنڈی مارنے کا کوئی امکان نہیں زبانی امتحان یا انٹر ویو کا طریقہ انگریزوں نے اس بنیاد پر رائج کیا تھا کہ اُمید وار کی شخصیت کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیکر موزوں ترین اُمید وار کے انتخاب میں اسانی پیدا کی جائے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ موزون ترین امیدوار کو مسترد کر کے بازار کے نرخوں کو دیکھ اپنی مرضی اوراپنے مفاد کا اُمیدوار لایا جائے آئی ایس ایس بی میں انٹرویو کا پرانا نظام اب تک رائج ہے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں زبانی امتحان کے گھپلوں کی شرح 5فیصد سے بھی کم ہے پنجاب ،سندھ اور بلوچستان میں میرٹ کا نظام موجود ہے NTSاورETEAمیں میرٹ پر عمل ہو تا ہے لیکن خیبر پختونخو ا پبلک سرو س کمیشن نے سسٹم کو ڈی ریل کر دیا ہے با خبر سماجی اورعلمی حلقوں نے انٹی کر پشن اور نیب کے ذریعے خیبر پختونخوا پبلک سروس کمیشن میں گذشتہ 5 سالوں کے دوران مختلف پوسٹوں کے لئے ہونے والے ٹیسٹ اور انٹرویو کی باقاعدہ تحقیقات اور کمیشن کے حکام کے اثاثوں کی چھان بین کا مطالبہ کیا ہے اگر سائنسی خطوط پر تحقیقات کی گئی تو کالی بھیڑوں کا پور اریوڑ منظر عام پر آجائے گا 28یا 30 سال کے تعلیم یا فتہ نوجوان کو اُس کے حق سے محروم کر کے کم ترقابلیت اور کم تر صلاحیت کے سفارشی اُمید وار کے لئے میدان ہموار کر نا نا قابل معافی جرم ہے اکیڈ مکس کو پس پُشت ڈال کر ٹیسٹ کے نمبروں سے صرف نظر کر کے زبانی امتحان کی بنیاد پر کسی کو ملازمت دینا سنگین جرم ہے پہلی دفعہ امتحان پاس کرنے والے پر تین یا چار سبلی دینے والوں کو اُس کے باپ کی دولت کی وجہ سے ترجیح دینا میرٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے اور بد قسمتی سے ہمارے صوبے کا پبلک سرو س کمیشن ایسی بد عنوانیوں کا گڑھ بن چکا ہے اس گندکو صاف کرنے کے لئے عبداللہ کی طرح مثالی کردار کے چیئرمین کی ضرورت ہے ۔

گفت یافت می نشو جستہ ایم ما

گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button