تحریر۔اسلم چلاسی
وزیر جنگلات عمران وکیل کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات دو سال تک سابقہ حکمرانوں کے گند کو صاف کرنے میں لگا رہا اور دو سال بعد محکمہ جنگلات ایک مثالی ادارہ بن گیا ہے سابق حکومت کی کرپشن کا معاملہ اپنی جگہ پر مگر موجودہ فرشتہ صفت حکومت کا بھی اس شعبے میں کوئی خاص نمایا اور قابل رشک تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی ہے زمہ داران کی وہی انداز وقت گزاری ہے جنگلات اور جنگلی حیات کے نسل کشی اسی تواتر سے جاری ہے ٹمبر ما فیا بے لگام ہے عارضی ملازمین برسوں سے اب بھی مستقلی کے منتظر ہیں اب بھی عارضی ملازمین کو سال چھے مہینے کے بعد دو چار مہینوں کا تنخواہ ملتا ہے اب بھی جنگلات سے کو سوں دور محکمہ جنگلات کے دفاتر ہے اب بھی جنگلات کے دیکھ بحال کیلے کوئی پیٹرلینگ ٹیم وجود میں نہیں آئی ۔اب بھی جنگلات فورس نہیں بنی جنگل سے متصل کوئی چک پوسٹ آج بھی نہیں ہے آگ لگنے کی صورت میں آج بھی محکمہ جنگل بے بس ہے خیر سابقہ حکومت ہزار کرپٹ صحیح مگر دیامر میں برسوں سے پڑی ہوئی ار بوں مالیت کے دس فیصد قیمتی عمارتی لکڑی کو ایک ترسیلی پالیسی تو دے گئی نویں فیصد قیمتی لکڑی گزشتہ تیس سالوں سے پڑی ہے اور ادھی سے زیادہ بوسیدہ ہو کر خراب ہو گئی ہے مگر انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ ایماندار حکومت اپنے دو سالہ دور سلطنت میں ایک مکعب فٹ تک کی ترسیلی پالیسی لانے میں تا حال ناکام ہے۔اربوں مالیت کے لاکھوں مکعب فٹ انتہائی قیمتی لکڑی آج بھی ایمانداری سے حکومت کی ایمانداری کی منتظر ہے۔دوسری طرف جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے کوئی بہتر پالیسی دیکھنے کو نہیں ملی آج بھی پورے گلگت بلتستان میں قدرتی جنگلات کے اسی فیصد حصہ دیامر میں ہے یہاں اب بھی قدرتی جنگلات کے فراوانی ہے جس میں تعمیری مقاصد کیلے استعمال ہونے والی لکڑی دیا ر ،، کائل ،،فر ، و دیگر انواع اقسام کی سوختنی لکڑی کے جنگلات ایکڑوں پر محیط ہیں جہاں بیش قیمتی جلغوزہ کے جنگلات بھی ہیں جس سے سالانہ اربوں کے حساب سے علاقے کے لوگوں کو زر مباد لہ حاصل ہوتا ہے ساتھ میں میدانی علاقوں سے متصل پہاڑیوں پر مویشیوں کے چراگاہ کے طور پر استعمال ہونے والے وہ جنگلات ہیں جس سے مقامی مال مویشیوں کے کاروبار سے منسلک ہزاروں لوگوں کے مستقبل وابستہ ہیں ۔
یہ جنگلات بدقسمتی سے گزشتہ ایک صدی سے بے دریغ کٹتے آرہے ہیں بیشتر علاقوں میں دیار اور کائل کا تو وجود ہی ختم ہو چکا ہے ،، فر ،، اور دیگر اقسام کے جنگلات بھی شدید خطرے میں ہیں چونکہ اس وقت ہر شخص ما فیا کا روپ دھار چکا ہے ما ضی میں آری اور کلہاڑی سے کام چلایا جاتا تھا اب ان اوزار کی جگہ میں جدید مشینیں آچکی ہیں جن کے زریعے قدرتی جنگلات کی صفائی جاری ہے۔ دیار جو قدرتی جنگلات میں بادشاہ کی حیثیت رکھتا ہے، باقی جنگلات سے قدرے کم بلندی پر ہوتا ہے۔ اس درخت کی لکڑی سب سے قیمتی ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں دیامر کے کل جنگلات کا پچاس فیصد دیار سے بھرا ہوتا تھا۔ آج بد قسمتی سے بیشتر علاقوں میں اس قیمتی نوع کی جنگل بالکل نا پید ہو چکا ہے اور کچھ علاقوں میں اس جنگل کی محض دو فیصد باقی ہے، اس دو فیصد پر بھی ما فیا نظریں جمائی بیٹھی ہے ۔
گزشتہ تیس سالوں کی نسبت سے جا ئیزہ لیا جائے، تو ساٹھ فیصد جنگلات بر باد ہو چکا ہے۔ اب لے دے کر ،، فر ،،اور دیگر قسم کی سوختنی مقاصد میں استعمال ہونے والے جنگلات کا ایک قلیل حصہ باقی ہے ۔جلغوزہ کے درخت کو مختلف اوزار بنانے کے غرض سے کا ٹنے کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ کم بخت مقامی لوگ جلغوزوں کے سیزن میں اگر چلغوزہ کے گچھے زیادہ بلندی پر ہو تو پوری شا خ کو کا ٹ دیتے ہیں اور کہیں کہیں پورے درخت کو بھی ڈھیر کرتے دیکھا گیا ہے اور جو درخت مو یشیوں کے چارہ کے کام آتے ہیں وہ دوسرے جنگلات سے اونچائی میں قدرے کم ہوتے ہیں اب مقامی چرواہوں نے ان چراگاہ کے طور پر استعمال ہونے والے درختوں کو بھی کا ٹنا شروع کیا ہے،
اگر اسی تناسب سے کٹائی جاری رہی تو اگلے دس سالوں میں دیامر کے جنگلات صفحہ ہستی سے مٹ جائینگے۔ چونکہ ان قدرتی جنگلات کی شجر کاری ہوتی ہی نہیں ہے، اس لئے شجر کاری کے مد میں آنے والی رقم کو متعلقہ محکمہ چند مقامی لو گوں کے ساتھ مل کر ہڑپ کر جاتا ہے۔
موجودہ حکو مت کو چا ہیے کہ محض زبانی جمع خرچ سے با ہر آکر کوئی عملی نمونہ بھی دکھا ئے۔ اپنی تعریف خود کرنے کی بجائے اس لگی لگائی تعریف کا موقع ہمیں دیں۔ ہم اتنے تنگ نظر بالکل بھی نہیں ہے کہ اپنی آنکھوں دیکھے حا ل کو قر طاس پر نہ اتار سکیں۔ جہاں تعریف کا موقع دینگے وہاں تعریف ضرور ہوگی۔ بے جا تعریفوں کی امید بالکل بھی نہیں رکھنا۔
دیامر میں پڑی ہوئی اربوں روپے کے مالیت کی لکڑی کو مارکیٹ تک رسائی دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف دیامر کے عوام بلکہ پورے صوبے کے عوام کو فائدہ ہوگا،کیونکہ اس لکڑی سے جر مانہ و دیگر محصولات کی مد میں ایک خطیر رقم صوبا ئی حکومت کو حاصل ہوگی۔
تحفظ جنگلات اور جنگلی حیات کے حوالے سے مر حوم وزیر جنگلات محمد وکیل صاحب کے اس منصوبے کو عملی جامع پہنایا جائے جس میں جنگلات فورس کا قیام میں عمل لانا تھا۔ اس حوالے سے اسی فیصد کام ہو چکا تھا۔
جنگلات نہ رہے تو جنگلی حیات کا وجود ممکن نہیں ہے۔ جنگلات سے ہی جنگلی حیات کا وجود باقی رہتا ہے دیامر میں اسی فیصد جنگلی حیات ختم ہوچکی ہے۔
ہمیں صو بائی حکومت سے اب بھی بہتری کی امید ہے اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے چند مہینوں میں محکمہ جنگلات دیامر کے جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے گا۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button