قلمکار کسی بھی قوم اور ملک کے سرمائے ہوتے ہیں ۔۔یہ معاشرے کے نباض ہوتے ہیں ۔۔ان کی دوربین نگاہیں سب کچھ دیکھتی ہیں اور بہت دور تک دیکھتی ہیں ۔۔آج کا دور اگر چہ سائنس کا دور ہے۔۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے مگراقدار مٹتے جارہے ہیں اور دلوں کی موت یقینی نظر آتی ہے ۔۔انسان صرف مادی لحاظ سے زندہ نہیں رہ سکتا اس کو انسانوں کے معاشرے میں زندہ رہنا ہے۔۔ اس لئے زندگی کی بوقلمونیوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔۔اونچ نیچ ،بھاگ دوڑ ،جدو جہد ،رشتے ناطے ،اصول ضوابط ،اخلاق و کردار سب زندگی کے لئے ضروری ہیں ورنہ تو یہ جنگل ہے ۔۔اور خون پسینہ ایک کرکے دنیا کو خوبصورت بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ان سارے مسائل کو اجاگر کرنے والے ان کا حل ڈھونڈنے والے یہی قلم کار ہوتے ہیں ۔۔یہ بات مسلمہ ہے کہ قلم میں بہت بڑی طاقت ہے۔۔ اللہ پاک نے اسی قلم پہ قسم کھائی ۔۔اور لکھنے والے قلم پہ ۔۔آج جہان سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے وہاں پھر سے ان ترقی یافتہ معاشرو ں میں ا ن اقدار کی ضرورت پڑ رہی ہے جو انسانی زندگی کے لئے بنیاد تھیں ۔۔اس وجہ سے آج یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں میں سوشل ڈاکٹروں کی مانگ بڑ ھ گئی ہے اور’’ اخلاق حسنہ‘‘کو یورپ میں ’’سوشل کپیٹل ‘‘ کہا جا رہا ہے اخلاق حسنہ کی یہ دولت جس کے پاس ہو اس کو سب سے بڑا دولت مند کہا جاتا ہے ۔۔ہمارا چترال پرامن خوبصورت اور بیمثال تہذیب کی سر زمین ہے ۔۔مگر جو بھی ہے یہ انسانوں کا مسکن ہے ۔۔یہاں پر انسانی آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں ۔۔ان کا حل ڈھونڈنا ہوتا ہے ۔۔اپنی دھائی کسی تک پہنچانا ہوتا ہے ۔۔یہ دور میڈیا کاہے ۔۔۔دور کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔۔ لوگوں کو ترغیب و تعلیم دینا ، انکو آگاہی دلانا ،ان کے مسائل کی نشاندہی کر نا ،ان کو دوسری دنیا سے باخبر رکھنا ،ان کے حقوق کی نشاندہی اور حفاظت کرنا ،ان کو زندگی کی ساعتوں کا حساب رکھنے میں مدد دینا قلم کار کا فرض بنتا ہے ۔۔پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا ،سوشل میڈیا اس سلسلے میں بہت فعال ہیں سیکنڈ کی خبر سیکنڈ میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے ۔۔
ہمارے چترال میں میڈیا کا رول بہت مثبت پر اعتماد اور ایکٹیو ہے ۔۔اسلئے ہم زندہ قوموں کی مثال پیش کر سکتے ہیں جو بھی ایشو ہو ہمارا میڈیا اس میں مثبت ترین کردار ادا کرتا ہے ۔۔چترال ایکسپرس اس کی بہترین مثال ہے ۔۔اسکی عمر صرف تین سال ہے ۔۔مگر اس کی کوریچ توقع سے بہت آگے ہے اور قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے ۔۔چترال ایکسپرس نے اپنے تین سال پوری ہونے کے موقع پر ایک خوبصورت ترین تقریب چترال پامیئر ان ہوٹل میں نو جولائی کے دوپہر دو بجے منعقد کی ۔۔تقریب میں چترال کے معروف قلم کار چترال ایکسپرس کے کالم نگار اور اس سے وابستہ سارے قلم کار مدعو تھے ۔۔ایم پی اے محترمہ بی بی فوزیہ پروگرام میں تشریف لائی تھیں ۔۔چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈائرایکٹرپروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری پروگرام کی رونق تھے ۔۔محفلوں کی جان اپنی ذات میں خود انجمن جناب ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب ۔۔معروف ادیب اور عظیم قلمکار جناب مولانگاہ نگاہ صاحب موجود تھے ۔۔پروفیسرز ،صحافی،میڈیا پرسنز،نوجوان لکھاری پروگرام کو رونق بخش رہے تھے ۔۔سب سے بڑھ کے چترال کی بیٹیاں جو قلم کو اپنی پہچان بنانے کا عزم لے کر تشریف لائی تھیں ۔۔اور لگتا تھا کہ کل چترال کی سر زمین اپنی بیٹیوں پہ فخر کرے گی ۔۔بی بی فوزیہ ان کے درمیان ایسی بیٹھی تھیں جیسے تاروں کی جھرمٹ میں چاند ۔۔ان بیٹیوں میں یقیناًکتنی خدیجہ مستور، حاجرہ مسرور، فاطمہ حسن ،پروین شاکر اور حمیرہ احمد چھپی ہوئی ہیں ۔۔انعامات کے لئے کیٹگیریاں تھیں ۔۔جانچ پڑتال کے لئے باقاعدہ منصف بیٹھائے گئے تھے ۔۔انھوں نے مقابلوں میں انعامات کا فیصلہ کیا تھا ۔۔چارکٹیگریاں تھیں ۔۔سپورٹس کوئریج کرنے پر جناب جمشید احمد کو انعام کا حقدار قرار دیا گیا ۔۔خبروں کے لئے جناب ظہیر الدین صاحب کوانعام دیا گیا ۔۔نجی مسائل پر خوبصورت لکھنے پر جناب محکم الدین صاحب اور جناب محمد صابر صاحب انعام کے حقدار ہوئے ۔۔ خواتین میں بہترین کالمسٹ کے لئے محترمہ صوبیہ کامران کا نام انعام کے لئے لیا گیا ۔۔
لکھاریوں میں چترال ایکسپریس سرٹیفیکٹس تقسیم کی گئی۔ مردوں میں تین نام سکرین پہ آئے ۔۔ان دو عظیم ناموں کے درمیان جب میں نے اپنے نام کو دیکھا تو تڑپ اُٹھا ۔۔کہ میرے ان اساتذہ جنھوں نے میرے ہاتھ میں قلم تھما دیا تھا ان کے نام کے ساتھ میرا نام لیا جارہاتھا ۔۔۔شکر ہے کہ انعام کا حقدار ڈاکٹر صاحب نکلے ۔۔میں نے چیخ کر آپ کو داد دی ۔۔لیکن عظیم لوگ عظمت کا تاج چھوٹے لوگوں کے سروں پہ رکھنا کیوں پسند کرتے ہیں آپ نے تاثرات بیاں کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں جاوید حیات کوانعام کا حقدار قرار دیتا ۔۔میں پھر تڑپ اُٹھا ۔۔اب سارے کیٹگریز ختم ہوچکے تھے ۔۔اور واقعی کماحقہ انعامات کے حقدار اپنے انعام لے چکے تھے ۔۔ لیکن اچانک ایک بندے کو سٹیچ پہ بلایا گیا اور شمع محفل بی بی فوزیہ کے ہاتھوں اسے انعام دیا گیا ۔۔منظر نامہ بدلنا نہیں چاہیے تھا ۔۔کاغذ پہ لکھے ہوئے جملے کاٹنا آسان ہے مگر منظر نامے کو منظر بنانا مشکل ہے لیکن روشنی جب پھوٹتی ہے تو لازماً ارد گرد کو منور کرتی ہے ڈاکٹر فیضی صاحب روشنی ہیں ۔۔
سٹیج پہ بہت انگریزی بولی جارہی تھی میں نے آکھیاں بند کرکے سننے کی کوشش کی کہ کہیں اردو روتی تو نہیں ۔۔کیا بُرا تھا’’اگر نومنیز‘‘ کی جگہ منتخب ہوئے ہیں کہا جاتا ۔۔ڈاکٹر بادشاہ منیر،ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی،سرتاج احمد خان اور مولانگاہ کے خوصورت تاثرات تھے ۔۔بی بی فوزیہ کا خوبصورت پیغام تھا ۔پروفیسر شفیق کے تحفظات تھے ۔۔۔سب سے بڑھ کر محبت تھی احترام تھا ۔۔چترال کے چاند تارے جمع تھے اور اس سر زمین سے خوشبو آرہی تھی بشیر حسین آزاد اورمحمد نایاب کے خلوص بول تھے ۔۔ان کی محنت اور محبت پھول بن گئے تھے ۔۔یہ پہلا لیکن اہم قدم تھا جو سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا ۔۔پروگرام مختصر اور رنگین تھا ۔۔اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔۔امید ہے کہ چترال ایکسپرس لکھاریوں کی پہچان ہو گا اور کل کوئی فخر کرے گا کہ اس کا ارٹکل چترال ایکسپرس میں شائع ہوا ہے ۔۔۔چترال ایکسپرس زندہ باد
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button