کالمز

اہم توجہ طلب مسلہ: ہمارا تعلیمی نظام

 تحریر سخی اکبر

تعلیم عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا مادّہ علم ہے جس کا معنی جاننا اور آگاہ ہونا ہے۔تعلیم صرف علم پہچاننے کا نام نہیں بلکہ اس میں کردار، اخلاق اور معاشرے کی تمام معمولات زندگی کی تربیت بھی شامل ہے۔دراصل علم کسی چیز کی حقیقت تک رسائی پالینے کا نام ہے۔

معاشرے کی بقا، تعلیم و ترقی اور استحکام کیلئے علم ایک بنیادی اکائی ہے۔علم سے ہی انسانی اور حیوانی معاشرے کے درمیان فرق پیدا ہوتا ہے۔تعلیم خود منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ذریعہ ہے۔مختلف ادیان کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام وہ واحد دین ہے جس میں تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔دنیا کے مختلف مملکتوں اور قوموں میں علم حاصل کرنے کا حق صرف اور صرف خاص اور مخصوص طببقوں کو حاصل تھا لیکن دین اسلام دنیا میں وہ واحد دین ہے جو تمام انسانوں کو بلا امتیاز ہر مرد و زن پر تعلیم کا حصول فرض عین قرار دیتا ہے۔نیز اس فرض کی انجام دیہی کو معاشرے کی ایک اہم ترین ذمہ داری بھی قرار دیتا ہے۔

محققین نے حصول علم کے تین بڑے اہم ذریعوں کا تعین کیا ہے ۔اول یہ کہ وسیلہ علم کاا ہم ذریعہ سکول، کالجزاور یونیورسٹیز وغیرہ ہیں۔نیز دینی مدارس اور دارالعلوم وغیرہ۔دوئم الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا یعنی ریڈیو، ٹیلی ویژن اور مختلف ڈیجیٹل سورسز نیز اخبارات، ناول اور مختلف کتب وغیرہ۔سوئم سینہ گزٹ یعنی حصول علم کا وہ ذریعہ جو سینہ بہ سینہ چلتا آرہا ہے۔جو ابتدا سے چلا آرہا ہے اور رہتی دنیا تک چلتا رہے گا۔جس وقت دنیا میں لکھ پڑھت سے انسان نابلد تھا اس زمانے حصول علم کا واحد ذریعہ سینہ گزٹ کو ہوا کرتا ہوگا۔جو آج تک چلا آرہا ہے۔یعنی علم کی ایک بات پر دادا نے دادا کو بتائی۔دادا نے اپنے بیٹے کو بتائی پھر بیٹے نے اپنے بیٹے کو بتائی۔اسطرح علم سینہ بہ سینہ پورے معاشرے میں پھیلتا چلا گیا۔اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔علم صاحل کرنے کا یہ سلسلہ جسے سینہ گزٹ کہا جاتا ہے حصول علم کا موثر اور لا متناہی سلسلہ ہے۔

جہاں تک نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی بات ہے۔پاکستانی ماہرین تعلیم کئی سالوں سے اس ملک کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو قومی اور ملی تقاصوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے مسلسل کوششیں کرتے چلے آرہے ہیں مگر تاحال وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے

ہیں۔اس ماہرین کی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے ماہرین تعلیم نے اکثر و بیشتر مغربی دانشوروں اور مغربی ماہرین تعلیم سے رہنمائی حاصل کرنے اور ان ہی کے آراء اورمشوروں سے استفادہ کرنے کو کافی سمجھا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ ان ماہرین نے اپنے معاشرتی اور ملکی حالات کے علاوہ مسلمان مفکرین اور مسلمان ماہرین تعلیم سے استفادہ کرنے کو اہمیت ہی نہیں دی جس کی وجہ سے وہ ملک و قوم کو ایک کامیاب نظام تعلیم اور نصاب تعلیم نہ دے سکے۔ہم بحیثیت قوم اس عظیم مقصد میں کامیاب صرف اور صرف اس صورت میں ہوسکتے ہیں کہ ہم اپنا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم اسلامی معاشرے اور قومی اور ملی تقاضوں سے ہم آہنگ بنائیں غیروں کے نہیں۔ ہم نہ اپنے رہے نہ غیروں کے۔ہم نے تو اپنے تعلیمی نظام کو ایسا کیا ہے۔

زمین کیا آسمان بھی تیری کج بینی پر روتی ہے۔

غضب ہے سطر قرآن کو چلیپا کردیا تو نے

محترم قارئین!اگرہم اپنے گریبان میں جھانکیں، میرا مطلب ہے کہ اگر ہم گلگت بلتستان کے محکمہ تعلیم اور سلسلہ تعلیم پر نظر ڈالیں تو قلم ضبط تحریر سے قاصر ہے۔پھر بھی ہمت کرکے چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔

ہمیں اپنے محکمہ تعلیم اور سلسلہ تعلیم کو سیاسی، مذہبی، علاقائی، خاندانی، ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر رکھ کر چلانا ہوگا۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہم مزید تباہ و برباد ہوکر غیروں کی غلامی میں چلے جائیں گے اور ہماری حالت بحیثیت قوم ایسی ہوگی”آئنگے غسال کا بل سے کفن جاپان سے”۔

ہمیں ذاتی مفاد سے قومی مفاد کو اہمیت دینا ہوگی اور ملازمتوں کے بھرتیوں کی خرید و فروخت کی منڈیاں لگانا بند کرنا ہونگی۔بصورت دیگر ہم صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے اور ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

ارض شمال کے نام نہاد اکابرین نے ملک کے دیگر صوبوں کے باسیوں کے ذہنوں میں اپنی نالائقی کا جو داغ بٹھایا ہے اسے نوجوان نسل کو مٹانا ہے یہ داغ صرف اور صرف محکمہ تعلیم اور سلسلہ تعلیم میں بہتری لاکر ہی مٹایا جاسکتا ہے۔ورنہ یہ داغ مزید مضبوط ہوگا اور ہم ناپید ہونگے۔

ہمارے دلوں میں اور دماغ میں مادیت اس حد تک رچ بس چکی ہے کہ ہم نے عظیم قومی مفادات کو بھی چند ٹکو کے عوض فروخت کرنے کو اہمیت دی ہے۔ہم حرص و ہوس اور عیش و عشرت کے دلدل میں اس حد تک دھنس گئے جہاں سے ہمارا نکلنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس حد تک مادہ پرستی کا شکار کیوں ہوئے ہیں؟

ملک و قوم کو اس پستی سے نکالنے کیلئے نوجوان نسل کو دین اسلام کے زرین اصولوں اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر سختی سے کاربند رہ کر عیش و عشرت اور حرص و ہوس کے لعنت سے اپنے آپ کونکال کر معاشرے میں حق اور انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوئے تو ہم قومی مجرم ہونگے اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔جوان نسل کو قومی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کلئے اس شعر کے مفہوم پر عمل پیرا ہونا ہوگا ورنہ آنے والی پود کا اللہ حافظ ہے۔

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و ثنا اول طاوس ورباب آخر

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button