کالمز

بلتی موسیقی ۔۔۔ رنگ میں بھنگ 

تحریر: حاجی سرمیکی

کون نہیں جانتا کہ تہذیب و ثقافت کی سنہری تاریخ سے مزین ادب بلتستان کی کتاب میں سے روایتی موسیقی اور ثقافتی رقص کے اوراق پھیکے پڑچکے ہیں۔اگر گلگت اور نواحی اضلاع کے ساتھ بلتستان اور قرب وجوار کا تقابلی تجزیہ کریں تو ڈھول کی تھاپ، بانسری کی لے، سرنے کی نے اور گائیکی کی ساز وآوازگلگت اور نواح میں خود سرچڑھ کر یہ بولتی ہے کہ کس کے سکے کھوٹے ہیں!

بلتستان کی نئی نسل کی نسبت گلگت کی وادیوں کی نئی پوت موسیقی اورسروساز کے ساتھ ساتھ رقص و انداز میں اپنا قدیمی انداز کی پاسدار نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلتستان کے اضلاع ، کھرمنگ، شگر، سکردو کی نسبت ابھی ضلع گنگچھے میں یہ روایت خال خال موجود ہے۔ البتہ دیگر اضلاع سے موسیقی اور روایتی سازندے ، آلات موسیقی اور سازو انداز معدوم ہونے کو آیا ہے۔ بہر کیف جہاں رہ بھی گئے تو ایسے دو چند کہ جن کے گلوِ ساز آشنا کو سوزِ نالہ روا کہاں۔ اپنی غریبی اور فن کی فی زمانہ کم مائیگی سے شکست خوردہ سازندے نواز اساتذہ کہاں بر سراحتجاج ہوجاتے۔ ایسے میں ایک غیر سرکاری ادارے کے زیر نگرانی نہ صرف پرانے موسیقاروں ، سازندوں اوربلتی موسیقی کے اساتذہ کو اکھٹا کرنے، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنے، جاں بلب بلتی موسیقی کودوبارہ اجاگر کرنے اور پرانی دھنوں کو محفوظ کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا بلکہ اسے نئی پوت تک پہنچانے کا خاص اہتمام کیا گیا۔

غیر ملکی امداد سے پایہ تکمیل کو پہنچنے والے اس منصوبے کی اختتامی تقریب سکردو میں منعقد ہوئی۔ جس میں ادارے کے چیرمین گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر اور شاعر و ادیب حاجی فدا ناشاد کے علاوہ گلگت بلتستان کے مختلف نابغہ روزگار افراد نے شرکت کی۔ رات کے دوسرے پہر شروع ہونے والی اس تقریب کو ثقافتی موسیقی، تازہ فنکاروں کی استادی ، جدید موسیقی کی جھلکیوں اور روایتی رقص کے موجودہ شاہکار وں نے مسحورکن بناڈالا جو کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ محفل میں رائل فاونڈیشن نامی راجہ خاندان کے افراد کی تنظیم کے نمائندے بھی شریک تھے۔ رائل فیملی کے بزرگوں سے بہتر کون روایتی موسیقی اور علاقائی تہذیب و ثقافت کو جان سکتا ہے کہ عہد رفتہ میں ان کی شاہانہ خواہشات سے گاؤں گاؤں میلے ٹھیلے تو پل بھرمیں بر سر انجام ہوتے تھے۔کیا بعید کہ آج کی تقریب میں سرنے کی لے پر وہ اڑ کر عہد رفتہ میں اپنے بام عروج کو پہنچے ہوں گے جہاں ڈھول کی تھاپ نے انہیں تھپتھپا کر جمہوری دور کے حالت زارکا اندوہناک نظارہ پیش کیا ہوگا۔ خدا جانے انہوں نے فی زمانہ راجگان سے برتی جانے والی عمومی بے تکلفی پر حقیقت کے تلخ گھونٹ ، پردرد سازوں اور گھنیری یادوں کی گرمی سے سوکھتے گلے سے کس طرح اتارا ہوگا ۔بہر حال ان کے نمائندوں نے جمہوریت کو مجبوری کی بجائے خود اپنی رضامندی قراردیا اور اس پر اپنی پسنددیدگی کا اظہارکیا۔ راجہ خاندان کے بزرگوں کی نسبت نوجوانوں کو بے تکلفی سے تقریب میں قدرے زیادہ ہنستے مچلتے دیکھا گیا۔

بلتستان کلچر اینڈ آرٹس نامی فنکاروں کی تنظیم کے تربیت یافتہ فنکاروں نے جہاں روایتی سازوسامان کو بجانے اور روایتی سروساز پیش کرنے کا ماہرنہ مظاہرہ کیاوہاں روایتی رقص کی موجودہ چند اقسام پیش کئے۔ ان کی ٹیم کو بی سی ڈی ایف نامی غیر سرکاری ادارے کی سرپرستی میں موسیقی کی مکمل فنی تربیت فراہم کی جاچکی تھی اور اب ان کے بال و پر نکلے

آئے تھے اور خود اڑان بھرنے لائق ہوچکی تھی۔ تمام سامعین اور شرکاء رات گئے تک اس تقریب سے محظوظ ہوتے رہے۔ علی کاظم گولڈن اور اس کی ٹیم کی فنکارانہ صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آرہی تھیں۔ روایتی رقص کی موجودہ شکلیں ان کی ٹیم نے بڑے خلوص اور ادب کے ساتھ پیش کئیں۔ جہاں روایتی رقص وانداز میں فی زمانہ ثقافتی اور تہذیبی تبدیلیوں کے باعث انیس بیس کا فرق پڑ چکا تھا وہاں ان کی محنت ، تہذیب پسندی اور فنکارانہ دلچسپیوں نے شرکاء کو اپناگرویدہ بنا کر داد دینے پر مجبور کیا ۔اعجاز جبران اور راجہ محمدعلی شاہ مقپون کی خوبصورت آوازوں کے ساتھ حسین بلغاری، راجہ صبا جیسے نامی گرامی بلتی شعراء اوراردو کے دیگر شعراء کے کلام بلتستان سے تعلق رکھنے والے شرکاء کے علاوہ دیگر علاقوں سے آئے مہمانوں کی لطف طبع کا باعث رہا۔ افضل علی شگری سابق آئی جی نے اس منصوبے کو ایک قابل تقلید کاوش قرار دیا اور تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے ایسے اقدامات جاری رکھنے پر زور دیا۔ چند راجہ خاندان کے نمائندوں نے عوامی نمائندوں کی اس بابت برتنے والی طوطا چشمی پرانہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔ اس موقع پر کویت میں مقیم بلتی موسیقی کے استاد مہدی علی چھوربٹی نے بھی اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے خوب داد حاصل کی۔شگر کے راجہ اعظم خان نے کامیاب فنکاروں میں اسناد تقسیم کرنے کی نشست کی میزبانی کی۔میجر ریٹائرڈ امین خان نے ننھے بچوں کے ساتھ روایتی رقص پیش کیااور شائقین سے داد سمیٹا۔ اس بہت خوبصورت اور کامیاب تقریب میں بقول افضل شگری کے قوس و قزح کی مانند ہر رنگ موجود تھا، بلتی کے علاوہ قومی زبان اردو، گلگتی زبان شینا اور بروشسکی میں بھی ساز پیش کئے جن پر ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے جوانوں نے باہیں پھیلا کر اوردل کھول کر رقص پیش کیا۔ یوں تو دل اس تقریب کی انفرادیت اور کامیابی پر داد دیئے بنا نہ رہ پایا۔

تاہم ریڈیو سے تعلق رکھنے والے نہایت قابل احترام اناونسر کی بطور منتظمِ تقریب تنقیدی باتوں ، بے ربط سی تاریخ گوئی اور القاب و آداب اور نشست وبرخاست میں الفاظ کے چناو میں کمزوری، اتارچڑھاو میں بے ربطگی نے بلتستان کی روایتی سٹیج میزبانی کی مہارتوں میں بھنک ڈال دی۔ موصوف اس جاں بلب ثقافتی ورثے کی ترویج میں کوشاں نوجوانوں کو داد وتحسین سے نوازنے کی بجائے ان کی کمزوریوں پر تنقید کرتے نظر آئے۔ اس کے علاوہ وقت کی نزاکت اور سامعین کی دلچسپی کے برخلاف خشک موضوعات پر لمبی گفتگو کرتے رہے۔ ان کی باتوں میں تمہید، عروج اور اختتامیہ کے اثرات عنقا تھے جو بطور ایک سٹیج منتظم کے کمزور صلاحیتیوں کی علامت ہے۔موصوف بار بار رقص پیش کرنے والوں پر بیجا تنقید کرتے رہے۔اس پر نہ صرف نازک مزاج فنکار نالاں اور دل شکستہ ہوگئے بلکہ انہیں بذبان خود برسر محفل اپنے کئے کی معذرت گزارنی پڑنی۔ ان کے تجربے اور ضعیفی کا تقاضا تھا کہ کسی دوسرے نے پیشگی ان سے نہ سکرپٹ چیک کیا ہوگا اور نہ ترتیب وتدوین میں باہمی مشاورت کے اثرات نظر آرہے تھے۔ دوسری طرف جہاں راجہ محمدعلی شاہ مقپون اوراعجاز جبران ،علی کاظم گولڈن جیسے بلتی گلوکار مدعو تھے وہاں قومی سطح پر شہرت یافتہ فنکار محمدعباس آنند کو اس تقریب میں بالخصوص نظر اندازکیا گیا تھا۔ امید ہے اس کی معذوری کو اس کی کمزوری سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا ہوگا۔ وگرنہ صرف اس تقریب میں بلکہ اس پورے سلسلے میں اس کی معصومانہ ، خود ساختہ ، مشقت آزما اور آزمودہ صلاحیتوں کی ایک دنیا معترف ہے۔ جواں سن اس کثیرالصلاحیہ فنکار کی قبولیت، شمولیت اور قابلیت سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف بلتی فن موسیقی میں نئی روح پھونکی جاسکتی تھی بلکہ بطور فنکار اسے خود بھی بلتی موسیقی کے زیروبم کوسمجھنے اورسیکھنے کا ایک اچھوتا موقع میسر آتا۔

عباس آنند نے اپنی مدد آپ بلتی اور جدید ہندی اور اردو موسیقی کے دھنوں پیانو اور ہارمونیم کے ذریعے پیش کرنے میں حیران کن مہارت حاصل کر رکھی ہے اور کئی بار علاقائی اور قومی سطح کے پروگراموں میں جاکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں۔ یقیناًاسے بحیثیت ایک نوآموز فنکار بلتی روایتی اور ثقافتی موسیقی کے گر سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن اس نوعمر اور باصلاحیت فنکارپر بھی توجہ دے کربلتی موسیقی کو ایک دیرپا اور معیاری کردار کے حوالے کیا جاسکتا تھا۔ حاجی فدا محمد ناشاد بھی آنند کی صلاحیتوں کے دلدادہ ہیں اور آنند کو اس کے بچپن سے ہی دیکھتے آئے ہیں ایسے میں اس اہم منصوبے میں اس کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button